جنوبی ایشیا پانی کے وجودی بحران کی دہلیز پر: ماہرین کا انتباہ جنوبی ایشیا پانی کے وجودی بحران کی دہلیز پر: ماہرین کا انتباہ

چئیرمین زرغون تحریک انجنئیر عبدالولی خان یوسفزئی

تحریر: انجنیر عبدالولی خان یوسفزی

جنوبی ایشیا کے ممالک، بالخصوص پاکستان، افغانستان، بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش، ایک سنگین ماحولیاتی اور آبی بحران کے خطرے سے دوچار ہو چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑوں میں موجود گلیشیئرز کی تیزی سے پگھلاؤ، زیر زمین پانی کی شدید کمی، بارش کے پانی کا ضیاع، اور ناقص سیوریج نظام کروڑوں انسانوں کے لیے وجودی خطرہ بن چکے ہیں۔

عالمی ادارے ICIMOD، UNEP اور IPCC خبردار کر چکے ہیں کہ اگر موجودہ گلوبل وارمنگ کی شرح جاری رہی تو 2100 تک جنوبی ایشیا کے 60 سے 80 فیصد گلیشیئرز مکمل طور پر ختم ہو سکتے ہیں۔ ان گلیشیئرز سے 1.3 بلین افراد کا پانی وابستہ ہے۔ خطے کے ماہرین اس صورتحال کو ایک "وجودی بحران” قرار دے رہے ہیں۔

افغانستان: جنگ، تباہی اور پانی کی کمی

افغانستان میں چار دہائیوں پر محیط جنگوں نے قدرتی آبی وسائل کو برباد کر دیا ہے۔ ڈیمز کی عدم موجودگی اور تباہ حال ندی نالے نہ صرف پانی کی قلت پیدا کر رہے ہیں بلکہ گلیشیئرز سے بہنے والا پانی یا تو ضائع ہو رہا ہے یا سیلاب بن کر تباہی مچا رہا ہے۔

پاکستان: پانی ذخیرہ کرنے کی کم ترین صلاحیت

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش سب سے کم ہے۔ کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے سیاسی تنازعات کی نذر ہو چکے ہیں، اور موجودہ ڈیمز صرف چند دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، حالانکہ کم از کم 120 دن کا ذخیرہ ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔

ٹیوب ویل کلچر — زیرِ زمین پانی کا زوال

پاکستان اور بھارت میں لاکھوں غیرقانونی ٹیوب ویلز زمین سے پانی نکال رہے ہیں، جس کے باعث زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے۔ ادارے WAPDA اور PCRWR اس خطرے پر متعدد بار متنبہ کر چکے ہیں۔

بارش کا پانی ضائع، سیوریج زہر بن گیا

شہری علاقوں میں سالانہ اربوں لیٹر بارش کا پانی ضائع ہو رہا ہے، جبکہ ری چارجنگ سسٹمز کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری جانب سیوریج اور صنعتی فضلہ دریاؤں اور زیر زمین پانی کو زہریلا بنا رہا ہے۔

زرغون تحریک کی سفارشات

چیئرمین زرغون تحریک انجنیر عبدالولی خان یوسفزی نے ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے درج ذیل اقدامات تجویز کیے ہیں:

  1. ٹیوب ویلز کی سخت نگرانی: اجازت نامے کے بغیر پانی نکالنے پر مکمل پابندی ہو۔
  2. بارش کے پانی کا ذخیرہ: ہر نئی تعمیر میں واٹر ٹینک لازمی قرار دیا جائے۔
  3. سیوریج پانی کی ری سائیکلنگ: صنعتی، زرعی اور شہری مقاصد کے لیے دوبارہ استعمال کیا جائے۔
  4. قانونی ضابطے: پانی کے استعمال پر ضوابط نافذ ہوں اور خلاف ورزی پر جرمانہ ہو۔
  5. شعور بیداری مہم: تعلیمی، مذہبی اور میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کیا جائے۔
  6. ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر ضابطے: STP کی تنصیب لازمی ہو، اور واٹر یوز کی حد مقرر کی جائے۔
  7. واٹر ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام: نگرانی اور پالیسی پر عملدرآمد کے لیے خودمختار ادارہ تشکیل دیا جائے۔
  8. ریچارج ویلز اور حکومتی معاونت: زیر زمین ذخائر کو بھرنے کے لیے سبسڈی اور تکنیکی مدد فراہم کی جائے۔

ماہرین کا انتباہ: وقت کم ہے

تحریک کا کہنا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ نسلیں شدید قلت آب کا شکار ہوں گی اور یہ بحران نہ صرف انسانی زندگی بلکہ تہذیبوں کے وجود کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے