خفیہ اکاونٹس کا انکشاف ، ڈائریکٹوریٹ اف ٹوارسٹ سروسزانضمام کے بعد ٹوارزم اتھارٹی کو اکاونٹس حوالے کرنے سے انکاری

تیمور خان

خیبر پختونخوا محکمہ سیاحت کے ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز نے ٹوارزم اتھارٹی میں ضم ہونے کے بعد بھی تین اکاونٹس کو ٹور ازم اتھارٹی سے خفیہ رکھا۔ اکاونٹس میں کتنے پیسے پڑے ہیں اور اس پر کتنا منافع آ رہا ہے محکمہ سیاحت اس سے مکمل طور پر لاعلم ہے جبکہ متعلقہ بینکس بھی اکاونٹس کی تفصیلات محکمہ سیاحت کو مہیا نہیں کر رہے ۔

خیبر پختونخوا حکومت نے 2019 میں قانون سازی کے ذریعے محکمہ سیاحت کے مختلف ڈائریکٹوریٹس جن میں ڈائریکٹوریٹ آف کلچر( ڈی او سی )،ٹور ازم کارپوریشن خیبرپختونخوا (ٹی سی کے پی)، ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز ( ڈی ٹی ایس ) اور پاک آسٹریلین انسٹیٹوٹ اف ہوٹل ٹریننگ اینڈ منیجمنٹ (پیتام) شامل ہیں — کو خیبر پختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی میں ضم کیا تھا۔ان تمام ڈائریکٹوریٹس کے تمام اثاثہ جات اور بقایا جات بھی اتھارٹی کو منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا جس میں ٹور ازم کارپوریشن خیبرپختونخوا (ٹی سی کے پی) اور ڈائریکٹوریٹ آف کلچر نے فیصلے پر عملدرامد کیا۔ تاہم ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز ملازمین نے خود کو سِول سرونٹس قرار دینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اتھارٹی کو اثاثہ جات منتقل کرنے میں حیلے بہانوں سے کام لینے لگے۔

بالآخر ڈی ٹی ایس نے 10 جنوری 2023 کو اتھارٹی کے کنٹرولر سجاد حمید کے ساتھ ہینڈنگ ٹیکنگ ( اثاثہ جات کی حوالگی ) پر دستخط کر دئیے لیکن اس میں سے اکاونٹس سے متعلق صفحے پر دستخط موجود نہیں ہیں۔ پاک آسٹریلین انسٹیٹوٹ اف ہوٹل ٹریننگ اینڈ منیجمنٹ ملازمین نے بھی سِول سرونٹس کیڈر کے حصول کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ اسی بناء پر ان کے اثاثہ جات بھی اتھارٹی کو منتقل نہیں ہوئے۔

کراس بارڈر نیوز کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز کا کام ہوٹل، ریسٹورنٹ، ٹور آپریٹر، ٹریول ایجینسی، رینٹ اے کار، ٹریول گائیڈ کی رجسٹریشن، لائسنسنگ اور تجدید کرنا تھا۔ یہ ادارہ ٹریول ایجنسیز سے دو لاکھ سے چار لاکھ تک کیش گارنٹی لیتا رہا، ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز نے مسلم کمرشل بینک، حبیب بینک لمیٹڈ اور ایس ایم جی بینک میں تین الگ اکاؤنٹس کھولے جس کی محکمہ خزانہ سے نان اوبجیکشن سرٹیفیکٹ بھی نہیں لیا گیا۔ جبکہ بینک آف خیبر میں ایک اکاونٹ کی محکمہ خزانہ سے این او سی لی گئی ہے۔

مختلف اکاؤنٹس میں جمع کی گئی یہ رقم ایک اندازے کے مطابق پچاس کروڑ روپے سے زیادہ ہے اور اس پر باقاعدگی سے منافع بھی آتا رہا لیکن ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز نے اتھارٹی کو اس تمام عمل سے بے خبر رکھا۔ ذرائع کے مطابق ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز کے تین اکاؤنٹس کے بارے میں چند ملازمین کے علاوہ کسی کو کچھ علم نہ تھا۔ تاہم 2021 میں اس وقت کے اکاونٹنٹ جنرل نے جب صوبائی حکومت کو مختلف اداروں کے اکاؤنٹس کے بارے میں تفصیلات فراہم کیں تو اتھارٹی کو ان تین اکاؤنٹس کے بارے میں معلوم ہوا۔ لیکن اس میں کتنے پیسے پڑے ہیں اس بارے کسی کو کوئی علم نہیں ہے۔

اس کے بعد ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز اور اتھارٹی کے درمیان خط و کتابت شروع ہوئی۔ جبکہ ان بینکوں کو بھی مراسلے بھیجے گئے کہ ان اکاؤنٹس سے رقم جاری نہ کی جائے۔ لیکن بینک آف خیبر کے علاوہ کسی دوسرے بینک نے اس پر عملدرامد نہیں کیا۔ اس کے علاوہ کئی مرتبہ اتھارٹی نے دستخط کی تبدیلی کے لیے بھی مراسلے ارسال کئے لیکن اس پر چاروں بینکوں نے عملدرامد نہیں کیا۔

کچھ سال قبل ایس ایم ای بینک جب ختم ہوا تو ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز نے اس سے 33 کروڑ 40 لاکھ روپے نکال کر مسلم کمرشل بینک میں اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروائے۔ لیکن اب مسلم کمرشل بینک میں کتنے پیسے ہیں اور دیگر اکاؤنٹس میں کتنی رقم ہے اس بارے میں اتھارٹی کے پاس کوئی مصدقہ معلومات نہیں ہے۔ اس دوران ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز کے 168 ملازم سِول سرونٹس قرار دیئے جانے کے بعد سرپلس پول میں چلے گئے۔

رابطہ کرنے پر ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ربی نے کراس بارڈر نیوز کو بتایا کہ سن 1976 کے ٹریول ایجنسی ایکٹ کے تحت ٹریول ایجنٹس حکومت کے پاس بزنس گارنٹی فنڈز جمع کراوتے ہیں اور اگر وہ کسی کے ساتھ دھوکہ کریں تو باقاعدہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی طریقہ کار موجود ہے۔

اس کے علاوہ ان اکاؤنٹس کے کھولنے کے لیے محکمہ خزانہ سے نان اوبجیکشن سرٹیفیکٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے جبکہ اس میں آنے والا فنڈز بھی حکومت کا نہیں بلکہ ٹریول ایجنٹس کا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سن 2007 میں ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز کی ٹریول ایجنٹس کی یونین کے ساتھ میٹنگ ہوئی اور اس فنڈ سے 7 کروڑ روپے نکال کر پشاور میں مین جی ٹی روڈ پر سردار گڑھی کے مقام پر 8 کنال اراضی دفتر کیلئے خریدی گئی جو ابھی تک حکومت نے اپنے قبضہ میں نہیں لی جس کی مالیت اب کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے اور باقاعدہ اتھارٹی کے ساتھ ہینڈنگ اینڈ ٹیکنگ بھی ہوئی ہے لیکن 2022 میں ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز کے ایک کمپیوٹر آپریٹر نے مسلم کمرشل بینک کو ایک خط لکھا کہ ان کے دستخط سے ہی پیسوں کی لین دین ہو۔ بینک نے غلطی سے بات تسلیم کر لی۔ اس کے علاوہ اتھارٹی کی اپنی نا اہلی کی وجہ سے بھی اس کو صیح طریقے سے نہیں چلایا جا رہا ہے۔

کلچر اینڈ ٹوارزم اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل تاشفین حیدر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ پچاس کروڑ سے زائد کا فنڈز تو صرف ایک بینک میں موجود ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ دوسرے اکاونٹس میں بھی کروڑوں روپے کی فنڈز موجود ہے اب اکاونٹنٹ جنرل کو فرانزک اڈٹ کیلئے مراسلہ ارسال کیا ہے تاکہ تمام تفصیلات سامنے اسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے