رپورٹ: انجینئر عبدالولی خان یوسفزئی (چیئرمین، زرغون تحریک)
چین کے زیرتعمیر یانگ زانگبو میگا ہائیڈرو پروجیکٹ پر جنوبی ایشیا میں گہری تشویش پیدا ہو رہی ہے۔ برہما پترا دریا پر بننے والا یہ ممکنہ طور پر دنیا کا سب سے بڑا پن بجلی منصوبہ ہو گا، جس کی لاگت 137 ارب امریکی ڈالر بتائی جا رہی ہے۔ مگر جہاں یہ منصوبہ تکنیکی لحاظ سے ایک کمال سمجھا جا رہا ہے، وہیں جغرافیائی، ماحولیاتی اور علاقائی سلامتی کے حوالے سے اس کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
برہما پترا دریا: ایشیا کی آبی شہ رگ
برہما پترا دریا کی شروعات تبت کے انگسی گلیشیئر سے ہوتی ہے جہاں اسے "یرلُنگ سانگپو” کہا جاتا ہے۔ یہ دریا ہمالیہ کے مشرقی حصے میں ایک طویل اور گہرا خم (Great Bend) بناتا ہے، جس کے بعد یہ بھارت میں داخل ہوتا ہے۔ اروناچل پردیش میں اس کا نام "سیانگ” یا "دیہانگ” ہے، آسام میں اسے برہما پترا کہا جاتا ہے، اور بالآخر یہ بنگلہ دیش سے گزرتے ہوئے پدما دریا کے ذریعے خلیج بنگال میں جا گرتا ہے۔
چین کا میگا ڈیم منصوبہ: اعداد و شمار
منصوبے کا نام: یرلنگ سانگپو میگا ہائیڈرو پروجیکٹ
اونچائی: 300–350 میٹر
گنجائش: 60,000 میگاواٹ
سالانہ پیداوار: 250–280 ٹیرا واٹ آورز
ذخیرہ آب: 60–70 بلین کیوبک میٹر
تعمیراتی مدت: 4–7 سال (ذخیرہ بھرنے کا دورانیہ)
یہ ڈیم ممکنہ طور پر یا تو concrete gravity ہو گا یا rock-fill embankment قسم کا۔ ڈیزائن کے مطابق، اس میں Francis یا Pelton قسم کی ہائی ہیڈ ٹربائنز نصب کی جائیں گی، اور دریا کے بہاؤ کا رخ تبدیل کر کے تقریباً 12,000 کیوبک میٹر فی سیکنڈ پانی ٹربائنز میں ڈالا جائے گا۔
خطرات اور خدشات: کیا یہ صرف توانائی کا منصوبہ ہے؟
ہائیڈرولوجیکل چیلنجز:
یہ دریا دنیا کے سب سے زیادہ مٹی بردار دریاؤں میں سے ایک ہے، جو سالانہ تقریباً 2.2 ارب ٹن گارا لاتا ہے۔ اگر باقاعدہ صفائی نہ کی گئی تو اس ڈیم کی عمر 50–60 سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔
زلزلے کا خطرہ:
یہ منصوبہ ہمالیہ کی فالٹ لائن پر واقع ہے، جو دنیا کے سب سے زیادہ زلزلہ خیز علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ بڑے زلزلے کی صورت میں ڈیم کی ساخت اور نیچے موجود لاکھوں انسانوں کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
سیاسی استعمال:
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر چین اس ڈیم کو بطور "آبی ہتھیار” استعمال کرے — یعنی پانی روک لے یا اچانک چھوڑ دے — تو اس سے بھارت اور بنگلہ دیش میں قحط یا تباہ کن سیلاب آ سکتے ہیں۔
علاقائی اثرات: تین ممالک، ایک دریا، مختلف بحران
بھارت:
آسام اور اروناچل پردیش میں زراعت، فشریز اور بجلی کے شعبے کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ بھارت نے سفارتی سطح پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور بین الاقوامی فورمز پر اس معاملے کو اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔
بنگلہ دیش:
ڈیلٹا ریجن، جہاں ملک کی بڑی آبادی رہتی ہے، پانی کی شدید کمی یا زیادہ بہاؤ سے تباہ ہو سکتا ہے۔ سیلاب سے لاکھوں افراد کی نقل مکانی اور غذائی بحران جنم لے سکتے ہیں۔
پاکستان:
پاکستان، جو خود بھارتی آبی منصوبوں پر اعتراضات کرتا رہا ہے، اس صورتحال میں سفارتی برتری حاصل کر سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اقوامِ متحدہ میں "آبی انصاف” کے اصول پر زور دے سکتا ہے اور جنوبی ایشیائی واٹر چارٹر کی بات کر سکتا ہے۔
زرغون تحریک کی سفارشات اور مؤقف
زرغون تحریک، جو پاکستان میں آبی تحفظ اور ماحولیاتی انصاف کے لیے سرگرم ہے، نے اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تنظیم کے چیئرمین انجینئر عبدالولی خان یوسفزئی کے مطابق: "پانی ہتھیار نہیں، اللہ کی نعمت ہے۔ اسے انصاف سے بانٹنا سب کا فرض ہے۔”
تحریک کی سفارشات:
- جنوبی ایشیا میں واٹر کوآپریشن فورم کا قیام
- چین، بھارت، بنگلہ دیش کے درمیان باہمی معاہدہ
- اقوام متحدہ اور عالمی بینک کی ماحولیاتی جانچ
- ایک عالمی واٹر کوڈ آف کنڈکٹ کا نفاذ
نتیجہ: ترقی یا تباہی — فیصلہ کن موڑ پر کھڑا برہما پترا
یہ ڈیم اپنی تکنیکی شانداری کے باوجود خطے کے لیے ماحولیاتی اور جغرافیائی طور پر ایک حساس امتحان بن گیا ہے۔ اگر اسے صرف توانائی پیدا کرنے کے مقصد سے استعمال کیا جائے، تو یہ جنوبی ایشیا کے لیے ایک روشن مثال بن سکتا ہے۔ تاہم، اگر اسے سفارتی یا عسکری ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا تو برصغیر ایک شدید انسانی اور ماحولیاتی بحران کی طرف بڑھ سکتا ہے۔