تحریر: ڈاکٹر خان شہزادہ،ڈاکٹر عبداللہ
پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقے اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکش مناظر کی وجہ سے ہر سال لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ حسین مقامات کئی خاندانوں کے لیے ہمیشہ کے لیے ماتم کدہ بن جاتے ہیں۔ موجودہ سیاحتی سیزن کے صرف دو مہینوں (مئی تا جون 2025) میں، ملک کے مختلف پہاڑی علاقوں میں پیش آنے والے سات بڑے حادثات میں چالیس سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔
ان حادثات کی وجوہات میں اوورلوڈنگ، ڈرائیوروں کی مسلسل تھکاوٹ، پہاڑی علاقوں میں گاڑی چلانے کا تجربہ نہ ہونا، خطرناک مقامات پر لاپرواہی سے تصاویر بنانا، کشتیوں میں لائف جیکٹس کا استعمال نہ ہونا اور مقامی سطح پر وارننگ سسٹم کا فقدان شامل ہیں۔
پچھلے دو ماہ کے دوران، لوئر کوہستان میں اوورلوڈ گاڑی کھائی میں جاگری، گلگت بلتستان میں چار دوست رات کے سفر کے دوران حادثے کا شکار ہو گئے، بونیر میں ایک خاندان اپنی گاڑی سمیت گہری کھائی میں گر گیا، ناران میں گلیشیئر گرنے سے تین افراد لقمہ اجل بنے، کالام میں کشتی الٹنے سے پانچ لوگ ڈوب گئے، کاغان میں رات کے وقت ڈرائیونگ کے دوران گاڑی کھائی میں جاگری اور سوات میں دریا کے سیلابی ریلے نے پورے خاندان کو بہا دیا۔
ان حادثات سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر بروقت پالیسی سازی، اداروں کے درمیان تعاون، ٹرانسپورٹ آپریٹرز کی جوابدہی اور عوامی سطح پر آگاہی نہ بڑھائی گئی تو ایسے دل خراش واقعات ہر سیزن میں دہرائے جاتے رہیں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت، مقامی انتظامیہ، سول سوسائٹی اور میڈیا مشترکہ حکمت عملی بنا کر ایک قومی سیاحتی حفاظتی پالیسی مرتب کریں۔ ڈرائیورز کے آرام اور تجربے کو یقینی بنایا جائے، گاڑیوں کی گنجائش سے زیادہ سواری کو روکا جائے، کشتیوں میں حفاظتی اقدامات لازمی ہوں، اور خطرناک علاقوں میں وارننگ سسٹمز نصب کیے جائیں۔
سیاحوں کو بھی چاہیے کہ وہ پوری تیاری اور صبر کے ساتھ سفر کریں، خطرات کو سنجیدگی سے لیں، اور خوبصورتی میں چھپے خطرے کو نظر انداز نہ کریں۔ یاد رکھیں: سیاحت سکون اور خوشی ہے، لیکن احتیاط کے بغیر یہ موت کی طرف بھی لے جا سکتی ہے۔