رپورٹ (CBN247)
پشتونوں کی مزاحمتی شاعری کا ایک تابندہ ستارہ، انقلابی سوچ اور عوامی درد رکھنے والے شاعر مطیع اللہ تراب دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کر گئے۔ ان کی عمر تقریباً 60 برس کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ ان کی رحلت کی خبر نے پاکستان، افغانستان اور دنیا بھر میں پشتو بولنے والے لوگوں کو سوگوار کر دیا ہے۔
مطیع اللہ تراب صرف ایک شاعر نہیں، بلکہ پشتون عوام کے جذبات، دکھوں اور امیدوں کے ترجمان تھے۔ وہ جب کسی مشاعرے میں شعر سناتے تو مجمع دم سادھ کر سنتا، اور ان کی گرجدار آواز، شعلہ بیان لب و لہجہ اور جوشیلی نظموں سے یوں لگتا جیسے پورا ہال ایک زندہ احتجاج میں تبدیل ہو گیا ہو۔ اب یہی گرجدار آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی ہے۔
● ابتدائی زندگی:
مطیع اللہ تراب کا تعلق افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کے ایک چھوٹے سے دیہی علاقے سے تھا۔ ان کے والد ایک معمولی کسان تھے جو بس اتنی زمین رکھتے تھے جس سے خاندان کی بنیادی خوراک پوری ہو سکے۔ وہ ایک عام دیہی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے مگر ان کی سوچ غیرمعمولی اور بلند تھی۔
1979 میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد، لاکھوں افغانوں کی طرح تراب کا خاندان بھی ہجرت پر مجبور ہوا۔ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ گزین بنے جہاں مطیع اللہ نے اپنی جوانی کے ایام گزارے۔ ان حالات نے ان کے اندر کے شاعر کو جنم دیا اور ان کے قلم کو وہ درد دیا جو ان کی شاعری کی روح بن گیا۔
● شاعری کا اسلوب اور نظریہ:
مطیع اللہ تراب محض جمالیاتی یا رومانوی شاعری پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے:
“شاعر کا کام محبت کے بارے میں لکھنا نہیں، پھولوں کے بارے میں لکھنا بھی نہیں۔ شاعر کو لوگوں کے غم، ان کے درد، ان کی محرومیوں کے بارے میں لکھنا چاہیے۔”
ان کے اشعار میں غربت، مہاجرت، جنگ، بے گھری، قومی شناخت، استحصال اور آزادی کے گہرے موضوعات ملتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کو ایک مشن بنایا اور اسی کو پشتونوں کے لیے آواز بنایا۔ ان کا ایک مشہور شعر ہے:
“زه تر سپوږمۍ لاندې د حق چغې وهم
که څه هم هر ځای را پسې غږ دی د بند”
(میں چاندنی کے نیچے حق کی صدائیں بلند کرتا ہوں، اگرچہ ہر طرف مجھے قید کی دھمکی دی جاتی ہے)
● ایک انقلابی شاعر کی شناخت:
مطیع اللہ تراب صرف افغانستان کے نہیں، بلکہ پاکستان کے قبائلی و پختونخوا علاقوں میں بھی بے حد مقبول تھے۔ انہوں نے سرحد کے دونوں اطراف پشتونوں کی محرومیوں کو سمجھا اور انہیں اپنی شاعری میں جگہ دی۔ وہ ان گنے چنے شاعروں میں سے تھے جو پشتون سیاسی و سماجی شعور کے استعارہ بنے۔
ان کے کئی اشعار اور نظمیں نوجوانوں کے لیے انقلابی ترانے بن چکے ہیں۔ جلسے، مشاعرے اور سماجی تحریکیں ان کی نظموں سے قوت حاصل کرتی تھیں۔
● واپسی اور آخری ایام:
کئی برس پاکستان میں گزارنے کے بعد وہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں افغانستان واپس چلے گئے جہاں انہوں نے مختلف ادبی و عوامی حلقوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ان کی شاعری میں کبھی تھکن یا پسپائی محسوس نہیں ہوئی، بلکہ عمر کے آخری حصے تک بھی وہ اسی جذبے اور توانائی سے مزاحمتی شاعری کرتے رہے۔
● ادبی خدمات اور ورثہ:
مطیع اللہ تراب کا کلام کئی نسلوں تک پڑھا جاتا رہے گا۔ ان کی شاعری ایک دستاویز ہے جو افغان جنگ، پناہ گزینی، سماجی ناانصافی اور قومی شناخت کی جدوجہد کا آئینہ ہے۔
ان کے انتقال پر معروف ادیبوں، شاعروں، سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور عام پشتون عوام نے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کے اشعار و تصاویر تعزیتی پیغامات کے ساتھ وائرل ہو رہے ہیں۔