تحریر و تحقیق: انجینئر عبدالولی خان یوسفزئی چیئرمین زرغون تحریک
دنیا بھر میں اگر ایک طرف اقتدار کے ایوانوں میں شاہانہ تحفے گردش کر رہے ہیں، تو دوسری طرف غزہ جیسے خطے انسانی المیے کا شکار ہیں، جہاں بچوں کی بھوک، بیماری، اور بے گھری روزمرہ کی حقیقت بن چکی ہے۔
قطر کا 400 ملین ڈالر کا تحفہ: ایئر فورس ون سے بہتر؟
مئی 2025 میں قطر نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک جدید اور لگژری بوئنگ 747-8 طیارہ تحفے میں دیا، جس کی مالیت تقریباً 400 ملین ڈالر بتائی گئی۔ ٹرمپ نے اس طیارے کو موجودہ ایئر فورس ون سے زیادہ شاندار قرار دیا اور کہا کہ "صرف ایک احمق ہی اسے قبول نہ کرے گا”۔ ٹرمپ کے مطابق، یہ طیارہ عارضی ایئر فورس ون کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
اس اقدام نے امریکہ میں شدید اخلاقی اور قانونی بحث کو جنم دیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ امریکی آئین کی "ایمولومنٹس کلاز” کی خلاف ورزی ہے، جو وفاقی عہدیداروں کو غیر ملکی حکومتوں سے تحائف قبول کرنے سے منع کرتی ہے۔
قطر کی سابقہ روایت: اردوان کو طیارہ تحفے میں
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب قطر نے ایسی فیاضی دکھائی ہو۔ 2018 میں قطر نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو بھی ایک بوئنگ 747-8 طیارہ تحفے میں دیا تھا، جس کی مالیت 367 ملین ڈالر تھی۔ اُس وقت بھی ترکی کے اندر عوامی حلقوں میں اس پر شدید تنقید کی گئی۔
غزہ: ایک کھلا انسانی المیہ
جہاں ایک طرف اربوں ڈالر کے تحفے حکمرانوں کو دیے جا رہے ہیں، وہیں دوسری طرف غزہ میں انسانی جانیں ارزاں ہو چکی ہیں۔ اکتوبر 2023 سے مئی 2025 تک جاری اسرائیلی بمباری اور محاصرے کے نتیجے میں کم از کم 52,653 فلسطینی ہلاک اور 118,897 زخمی ہو چکے ہیں۔
بے گھر افراد: تقریباً 1.9 ملین فلسطینی، یعنی غزہ کی 90 فیصد آبادی، بے گھر ہو چکی ہے۔
صحت کا بحران: غزہ کے 36 میں سے صرف 22 اسپتال ہی جزوی طور پر فعال ہیں، اور وہاں طبی سامان کی شدید قلت ہے۔
غذائی قلت: مارچ 2025 میں اسرائیل نے غزہ کو ہر قسم کی امداد بند کر دی، جس کے بعد خوراک کی قیمتیں 1400 فیصد تک بڑھ گئیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، مئی 2025 تک 66,000 بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
نظریاتی تضاد: تحفے کہاں اور مدد کہاں؟
یہ سوال اب زیادہ شدت سے اٹھ رہا ہے کہ جب قطر جیسے اسلامی ممالک اربوں ڈالر کے طیارے تحفے میں دے سکتے ہیں، تو کیا وہی دولت غزہ کے یتیموں، بھوک سے بلکتے بچوں، اور بے گھر خاندانوں کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی؟ کیا اسلامی و انسانی اقدار صرف تقریروں اور بیانات تک محدود ہو چکی ہیں؟
دفاع صرف بارڈر کا نہیں، نظریے اور ایمان کا بھی ہوتا ہے
زرغون تحریک کا نظریہ واضح ہے:
"دیفنس صرف بارڈر کا نہیں، ایمان، انسانیت، اور نظریے کا ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنی فوجی طاقت صرف جغرافیائی حدود کے تحفظ پر خرچ کر رہے ہیں اور مظلوموں کی مدد سے قاصر ہیں، تو یہ مکمل دفاع نہیں بلکہ نظریاتی کمزوری ہے۔”
عرب دنیا کی خاموشی: ایمانی دیوالیہ پن؟
اگر فلسطین، یمن، شام، سوڈان، لیبیا اور دیگر مظلوم خطے جل رہے ہوں اور عرب دنیا خاموش تماشائی بنی رہے، تو یہ صرف سیاسی ناکامی نہیں بلکہ ایمانی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ اسلامی اخوت اور انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ہم مظلوموں کے حق میں آواز بلند کریں اور اپنی دولت اور طاقت کا مصرف بدلیں۔
نظریاتی بیداری کی ضرورت
زرغون تحریک مطالبہ کرتی ہے کہ مسلم دنیا اور تمام باشعور انسان اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات پر نظرثانی کریں۔ جب تک ہم طاقتوروں کی خوشنودی کے بجائے مظلوموں کی فریاد کو ترجیح نہیں دیں گے، دنیا میں عدل اور انسانیت کا قیام ممکن نہیں۔
"دنیا آپ سے ناراض ہو سکتی ہے، لیکن اگر آپ نے حق کا ساتھ دیا، مظلوموں کی مدد کی، تو خدا آپ سے راضی ہو جائے گا، اور یہی اصل کامیابی ہے۔”