تیمور خان
خیبر پختونخوا ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (ٹَیوٹا) حکومتوں کے لیے اپنوں کو کھپانے کی فیکٹری بن گئی ۔ ٹیوٹا نے ضرورت اور اختیار نہ ہونے کے باوجود سینکڑوں ملازمین کی تقرری کر کے انہیں مستقل کر دیا گیا جس سے صوبائی خزانے پر سالانہ کروڑوں کا بوجھ ڈالا گیا۔ ملازمین کی مستقلی پر جب سوالات اٹھنے لگے تو اب موجودہ حکومت نے کابینہ سےملازمین کومستقل کرنے کی منصوبہ بندی پر غورشروع کردیا ہے۔
موجود دستاویزات کے مطابق خیبر پختونختوا محکمہ انڈسٹریز کے ڈائریکٹوریٹ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی کے 107 انسٹیٹوٹس میں پاکستان تحریک انصاف کے ماضی کی دونوں حکومتوں نے من پسند افراد کو کھپانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
پرویز خٹک کے دورِ حکومت میں شاہین ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن ٹریننگ کو کچھ اضلاع میں اپ سکیلنگ کے لیے 30 انسٹیٹیوٹس پانچ سال کیلئے حوالے کرنے کا معاہدہ 2017 میں کیا گیا لیکن انہیں تقرری نہ کرنے کا پابند بنایا گیا تھا ۔ بعد ازاں حکومت نے انہیں تقرریاں کرنے کا بھی اختیار دے دیا جس کی منظوری ٹیوٹا کے بورڈ اف ڈائریکٹرز نے دی۔ ٹیوٹا کے 30 انسٹیٹیوٹس شاہین ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن ٹریننگ کے حوالے کردئیےگئے تھےجبکہ دو انہوں نے خود بنا لئے۔
شاہین ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن ٹریننگ نے کل 548 ملازمین کی مختلف ادوار میں عارضی بنیادوں پر تقرری کی جس میں سے صرف 69 ایسے ملازمین ہیں جن کے باقاعدہ انٹرویوز ہوئے اور ان کی متعلقہ تعلیمی اسناد کی جانچ پرکھ کے بعد تقرری کی گئی۔ جبکہ باقی ماندہ ملازمین کی تقرری میں نہ کوئی تحریری ٹیسٹ لیا گیا اور نہ ہی انٹرویوز کا انعقاد کیا گیا بلکہ اپنے من پسند لوگوں کی تقرری کی گئی ہے۔
اس میں سے ایسے ملازمین بھی شامل ہیں جن کے پاس گریجویشن کی ڈگری تک نہیں تھی لیکن پھر بھی انہیں 15 سے 17 گریڈ میں تعینات کیا گیا جو مستقلی کے بعد لوئر گریڈ میں آگئے۔ ٹَیوٹا نے اس کے علاوہ 10 کنسلٹنس اور چار سب انجنیئرز کو تین سالہ مدت کے لیے فکسڈ تنخواہ پر تعینات کیا گیا تھا ۔ فکسڈ تنخواہ کے باوجود ان کو سالانہ انکریمنٹ بھی ملتے رہے جبکہ قانون کے مطابق فکسڈ تنخواہ والے انکریمنٹ کے حقدار نہیں ہوتے ہیں۔ فکسڈ تنخواہوں والے یہ ملازمین بھی ٹیوٹا کے بیسویں بورڈ میٹنگ کے فیصلے کے نتیجے میں مستقل ہونے والے ملازمین میں شامل ہیں ۔ حیران کن طور پر جب وہ مستقل ہوئے تو انہوں نے سنیارٹی کی دعویداری بھی کر لی جو منظور بھی کر لی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ ملازمین تو ریگولرہوگئے مگر مذکورہ پوسٹیں اب بھی ٹَیوٹا کے ریگولیشن میں عارضی پوسٹوں کے طورپردرج ہیں۔
ٹیوٹا نے 60 کے لگ بھگ ملازمین کو ہنگامی بنیادوں پر تعینات کیا اور جب ان کو مستقل کیا جا رہا تھا تو ان میں سے دو ملازمین انتظامی عہدوں پر براجمان افسران کے منظورِ نظر نہ ہونے کی وجہ سے مستقلی سے باہر کر دئیے گئے ۔ صوبائی کابینہ نے بھی 3 دسمبر 2024 کو ٹیوٹا میں مزید تعیناتیاں محکمہ خزانہ کی منظوری سے مشروط کردی ۔ مگرٹیوٹا کی موجودہ انتظامیہ نے صوبائی کابینہ کے فیصلوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے 40 کے لگ بھگ ایمرجنٹ ملازمین کی تعیناتی کردی ہے ۔
اس کے علاوہ 2022 میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کے دو پراجیکٹس جس میں ایک سکِل ڈیویلپمنٹ اور دوسرا ٹیکنیکل ایجوکیشن پراجیکٹ کے ملازمین کو بھی مستقل کر کے ٹیوٹا میں ضم کرلیا گیا۔ ان کو ضم اضلاع کے بجائے بندوبستی اضلاع میں تعینات کیا گیا ہے۔ دونوں پراجیکٹس کے ملازمین کی مستقلی ایکٹ کے زریعے کی گئی جن کیلئے نئی اسامیاں تخلیق کی گئی اور ان کو سول سرونٹس کا درجہ دیا گیا تھا مگر ٹیوٹا انتظامیہ نے مذکورہ ملازمین کو ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹیوٹا کی پبلک سرونٹ سیٹوں پرمستقل کر دیا جس کی وجہ سے بندوبستی اضلاع کے اداروں میں اور ٹیوٹا ہیڈ کوارٹر میں ملازمین کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہو گئی ہے۔ انہی فیصلوں کی وجہ سے ٹَیوٹا کا سالانہ خرچہ 1 ارب 55 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ گیا ہے۔
ٹَیوٹا کے بورڈ کے پاس ملازمین کی تقرری کرنے کا اختیار تو ہے لیکن وہ ملازمین کی مستقلی کا مجاز نہیں ہے۔ اس پر محکمانہ انکوائری بھی ہوئی جس کے مطابق بورڈ کے پاس کسی بھی ملازم کو مستقل کرنے کا اختیار نہیں ہے اور انہوں نے مستقل ہونے والے ملازمین کے مستقبل کا فیصلہ کابینہ کے سامنے رکھنے کی سفارش کردی ہے ۔ اس بابت وزیر اعلی کے معاون خصوصی برائے ٹیوٹا طفیل انجم نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اس بارے سوچ و بچار جاری ہے اور جلد ہی اس کا فیصلہ کریں گے۔