ویب رپورٹ ( CBN247 )
گذشتہ دنوں ضلع خیبر سے ایک مقامی تاجر راہنماء شیرمحمد کو نامعلوم مسلح افراد نے اغوا ہونے کے بعد قتل کردیا جس پر کالعدم تحریک طالبان نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس واقع میں جو کوئی بھی ملوث پایا گیا ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی ۔
میڈیا کو جاری کئے گئے اپنے ایک بیان میں ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے مقتول تاجر کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس واقع کی پوری تحقیقات کی جائیں گی۔
بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ مقتول تاجر کو جاسوسی کے الزام میں اغوا کیا گیا تھا تاہم تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ وہ بے گناہ تھے اور ان کو رہا ہونے کا حکم دیا گیا ۔ رہاہونے کے ساتھ ہی نامعلوم مسلح افراد نے ان کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ اور اس شک کا اظہار کیا گیا کہ اس میں طالبان کے اپنے لوگوں کا ہاتھ ہوسکتاہے ۔
مقتول تاجر شیر محمد پر الزام لگایا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے سینئر کمانڈر قاری اسماعیل جو کہ سابق جماعت الاحرار کے بانی کمانڈر عمر خالد خراسانی کے قریبی ساتھی تھے کے مارے جانے میں جاسوسی کی تھی۔ مرکزی ترجمان کے بیان کے بعد مہمند طالبان اور موجودہ تحریک طالبان کے ایک سینئیر کمانڈر سربکف مہمند نے اپنے ایک آڈیو پیغام میں مرکزی قیادت پر سخت تنقید کی انھوں نے الزام لگایا کہ مرکزی قیادت جاسوسوں کو چھوڑ رہے ہیں عسکری اہلکاروں کو تاوان کے بدلے رہا کیا گیا جاسوسوں کے بارے میڈیا میں تعزیتی بیان اور اپنے “مجاھدین” کے اہل خانہ کے لئے دو بول نہیں کہہ سکتے۔
مرکزی قیادت ایک خاص ایجنڈے پر تحریک کو قبائیلی اور قومیتوں کی بنیاد پر تقسیم کر رہی ہے ۔ پاکستان میں جہاد کو صرف چند قبائیلی علاقوں تک محدود کیا گیا ہے ۔یاد رہے کہ مہمند اور محسود طالبان کے درمیان اس سے قبل بھی اسی طرح کے اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے جس کو وقتی طور پر رفع دفع کیا گیا تھا۔ تحریک میں دونوں گروپ طاقتور ہیں اور اس ایک نئی لڑائی کا آغاز کا خدشہ ہے ۔
تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے بھی اپنے ایک کالم اس موضوع پر لکھا ہے کہ جاسوسوں کے لئے اتنی ہمدردی کیوں؟ اگر یہی اختلافات مزید بڑھ گئے تو خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے امن مذاکرات پر اس کے منفی اثرات پڑسکتے ہیں ۔بظاہر تو یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان یا خوارج سے بات چیت نہیں کی جائے گی، افغان طالبان کی قیادت اور قبائیل کے درمیان بات چیت ہوگی لیکن صوبے میں اس وقت ریاست کے خلاف برسرپیکار تو یہی گروپ ہے ۔