احمد الیاس
خیبرپختونخوا کی تاریخی تعلیمی درسگاہ، زرعی یونیورسٹی پشاور، سنگین تدریسی اور انتظامی بحران کا شکار ہو چکی ہے، جس کے باعث طلبہ کی بڑی تعداد نے داخلے واپس لینے شروع کر دیے ہیں۔ مستند ذرائع کے مطابق، رواں تعلیمی سال کے پہلے ہی سمیسٹر میں مختلف شعبہ جات سے تقریباً 200 طلبہ نے اپنا داخلہ منسوخ کروایا، جس کے نتیجے میں یونیورسٹی کو 84 لاکھ روپے ریفنڈ کی صورت میں واپس کرنے پڑے۔
جامعہ میں جاری ملازمین کی ہڑتال، تدریسی عمل میں رکاوٹ، سہولیات کا فقدان اور اساتذہ کی کمی جیسے مسائل نے طلبہ کو مایوس کر کے دوسرے اداروں کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کے باوجود، یونیورسٹی انتظامیہ حالات بہتر بنانے کے بجائے، ہڑتالی ملازمین کے خلاف انتقامی اقدامات پر اتر آئی ہے، اور حالیہ سنڈیکیٹ اجلاس میں اپنی ناکامی کا ملبہ بھی انہی ملازمین پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سنڈیکیٹ اجلاس میں انتظامیہ کی جانب سے ہڑتالی ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی کی تجاویز پیش کی گئیں، جنہیں سنڈیکیٹ کے معزز ممبران نے مبینہ طور پر مسترد کر دیا۔ تاہم، اجلاس میں انتظامیہ نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ جاری ہڑتال کی وجہ سے یونیورسٹی کی طلبہ انرولمنٹ میں نمایاں کمی آئی ہے۔
باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ انتظامیہ اپنی ناقص کارکردگی چھپانے کے لیے جان بوجھ کر ملازمین کو نشانہ بنا رہی ہے، جبکہ یونیورسٹی کے کئی اہم شعبہ جات میں نہ صرف بنیادی سہولیات ناپید ہیں بلکہ فیکلٹی کی شدید کمی بھی تعلیمی معیار کو متاثر کر رہی ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اگر موجودہ حالات کا فوری طور پر آڈٹ کر کے شفاف تحقیقات نہ کی گئیں اور ذمہ داران کا تعین نہ کیا گیا، تو یونیورسٹی میں بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے، جس کا براہِ راست نقصان طلبہ کو ہی اٹھانا پڑے گا۔
موقف کےلئے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو تحریری سوالنامہ بذریعہ مسیج بھیجاگیا لیکن کئی روز گزرنے کے باوجود تا حال کوئی موقف انکی طرف سے نہیں دیا گیا ۔