ٹکر کی جنگ: سامراج مخالف جدوجہد کا بھولا بسرا باب

تحریر: ریاض حسین

خلاصہ:
28 مئی 1930 کو مردان کے نواحی گاؤں ٹکر میں برطانوی فوج کے خلاف ایک غیر مسلح مزاحمت نے تاریخ رقم کی۔ خدائی خدمتگار تحریک کے کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف دیہاتیوں کی مزاحمت ایک خونی تصادم میں تبدیل ہوئی، جسے آج بھی مقامی تاریخ میں جرأت، قربانی، اور عدم تشدد کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔


تاریخی پس منظر

1930 کی دہائی میں برطانوی ہندوستان میں سیاسی ہلچل عروج پر تھی۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختونخوا) اس مزاحمت کا مرکز بن چکا تھا۔ باچا خان کی قیادت میں خدائی خدمتگار تحریک نے تعلیم، اصلاحات اور عدم تشدد کو اپنا شعار بنایا۔

تاہم، 23 اپریل 1930 کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں برطانوی فوج کے ہاتھوں درجنوں پرامن مظاہرین کے قتل نے عوامی غصے کو مزید بھڑکا دیا۔ اسی ماحول میں ٹکر کی مزاحمت نے جنم لیا۔


خونی تصادم

28 مئی کو برطانوی فوجی تکر گاؤں میں خدائی خدمتگاروں کو گرفتار کرنے پہنچے۔ مقامی افراد، جو غیر مسلح تھے، نے گرفتاریوں کے خلاف مزاحمت کی۔ جھڑپ کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔ برطانوی فوج نے مشین گنوں اور توپخانے کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں 70 سے زائد دیہاتی شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔

برطانوی نقصانات کی تفصیلات سرکاری ریکارڈ میں واضح نہیں، تاہم مقامی بیانات ان کے بھی جانی نقصان کی تصدیق کرتے ہیں۔


اجتماعی سزا اور اثرات

واقعے کے بعد برطانوی حکومت نے تکر گاؤں پر اجتماعی جرمانے، جائیدادوں کی ضبطی اور دیگر سزائیں نافذ کیں۔ اس اقدام کا مقصد خطے میں مزاحمت کو کچلنا تھا۔

تاہم، یہ مظالم بھی خدائی خدمتگار تحریک کو دبانے میں ناکام رہے۔ تحریک نے نہ صرف علاقائی سطح پر اپنی جڑیں مضبوط کیں بلکہ عالمی توجہ بھی حاصل کی۔


تاریخی اہمیت

مورخین کے مطابق، اگرچہ ٹکر کی جنگ کو قومی بیانیے میں زیادہ جگہ نہیں ملی، مگر یہ واقعہ عدم تشدد کی پختہ روایت، عوامی مزاحمت، اور سامراجی جبر کے خلاف جدوجہد کا اہم استعارہ ہے۔

ڈاکٹر حمید علی، ماہر تاریخ، کہتے ہیں:
“ٹکر کے عوام کی قربانی ہماری تاریخ کا وہ باب ہے جسے اب یاد رکھنا لازم ہو چکا ہے۔”


یادگار اور تعلیمی مطالبات

ٹکر کے شہداء کی یاد میں ہر سال مقامی سطح پر تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔ مقامی رہنما اور مؤرخین مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے کو نصاب کا حصہ بنایا جائے اور قومی سطح پر یادگاریں تعمیر کی جائیں۔

سماجی کارکن احمد خان نے کہا:
“یہ صرف ٹکر کا قصہ نہیں، یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے جسے نسل نو تک پہنچانا ہوگا۔”


اختتامیہ

ٹکر کی جنگ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آزادی صرف سیاسی تحریک کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک عوامی قربانی اور استقامت کی کہانی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ اپنی تاریخ کے ان سچے مگر خاموش کرداروں کو تسلیم کرے، جو ظلم کے خلاف عدم تشدد کے اصولوں پر قائم رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے