رپورٹ(CBN247)
ضلع کرم کے متاثرین گزشتہ پندرہ دنوں سے پشاور پریس کلب کے باہر احتجاجی دھرنا پر ہے ،دھرنا کیمپ میں بڑی تعداد میں کرم کے اہلسنت شریک ہے جبکہ دھرنا میں بچے اور خواتین بھی شامل ہے ۔

متاثرین ضلع کرم نے گزشتہ روز اپنے مطالبات کےلئے شیر اہ سوری روڈ پر امن ریلی بھی نکالی اور گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا ۔

ضلع کرم کے متاثرین پشاور میں دھرنا کیوں دے رہے ہیں؟
دھرنا شرکاء کا کہنا ہے کہ 22 نومبر کو بگن پر لشکر کشی کی گئی لوگوں پر ظلم کے پہاڑکھڑے کر دئے لیکن اس میں ملوث ایک دہشتگرد کو بھی سزا نہیں ملی ہے اور نہ ہے بگن کے متاثرین کو ریلف ملا ہے جبکہ اب حکومت نے ان علاقوں میں سرچ اینڈ کلیرنس آپریشن بھی کیا ہے اب قوم وتیزئی کے سنٹرل کرم میں پستوانہ، کنڈعلی بابا، میلہ، زواکی، شیگیہ، درانی اور دیگر علاقوں میں لوگوں کے گھروں کو نظر آتش کیاگیا،بورھے اور بچے گھروں سے باہر کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

لیکن اب حکومت نے علاقہ کو مکمل طور پر خالی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں خوف کا فضاء قائم ہے پولیس گھروں کے اندر گھس کر چادر اور چاردیواری کو پامال کرتے ہوئے بزرگ، بچے اور بے گناہ افراد کو گرفتار کرکے ان پر تشدد کیا جارہا ہے جو مکمل ظلم اور ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کہ مقامی لوگ ہمیشہ امن پسند رہے ہیں کبھی بھی کسی دہشتگردانہ کاروائی میں ملوث نہیں رہے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ 17 فروری کو کنوائی پر حملہ روڈ پر ہوا اور ملوث افراد آرام سے چلے گئے جبکہ لوگوں کو گھروں اور مسجدوں سے زبردستی سے نکال کر گرفتار کیا اور ان پر تشدد کیا گیا جس میں رہا ہونے والے افراد ابھی بھی ہسپتالوں میں زیر علاج ہے۔
دھرنا شرکاء کا مزید کہنا تھا کہ پہلے بگن پر لشکر کشی ہوئی جس میں لوگوں کو زندہ جلایا بازار اور گھروں کو لوٹا گیا لیکن اس میں ایک بندے کو بھی ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ اسی طرح کنوائی پر حملہ کرنے والے ایک فرد کو بھی گرفتار نہیں کیا جاتا جبکہ عام شہریوں اور سکول کے بچوں کو گرفتار کیا جاتا ہے پوری علاقے کو یرعمال بنایا جاتا ہے خواتین اور بچوں پر گولہ بھاری کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رمضان کریم میں گرفتار افراد کو حبس بے جا میں رکھیں گئے ہیں نہ ان کو افطاری ملتی ہے اور نہ سحری ملتی ہے اور نہ ہی ابھی تک عدلت میں پیش کئے ہیں۔ جبکہ ابھی تک بگن پر ہونے والے ظلم کے خلاف حکومت بھی خاموش ہے اور نہ ہی ابھی تک ان کا آزلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کنوائی پر حملے کے بعد سیکورٹی فورسز نے علاقے میں کاروائی کرتے ہوئے لوئر کرم اہلسنت کے 13 گاڑیوں سمیت دو گھروں کو بھی جلائے گئے جو ظلم اور ناانصافی ہے۔
شرکاء نے کہا کہ 17 فروری کو کنوائی پر حملے کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور اس میں سیکورٹی فورسز شہید ہونے والے اہلکار پر دلی افسوس ہے۔ اور کنوائی پر حملہ کرنے والے ملوث افراد کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب تک ضلع کرم میں اسلحہ موجود ہو تب تک امن ناممکن ہے۔ لوئر کرم سے اسلحہ جمع کیا گیا اور اپر کرم والے اسلحہ جمع نہیں کرتے۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت نے آپریشن کا فیصلہ واپس نہیں لیا یا زبردستی لوگوں کو بے دخل کیا تو وہ گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنہ دینگے۔

احتجاجی دھرنا کی قیادت بحالی ویلفیئر آرگنائزیشن کے چیئرمین نوروز خان، صدر خیالی الرحمان، سنی ایجوکیٹیڈ کونسل کے صدر سمیع اللہ، بابائے کرم سعید الرحمن، خان امیر زدران، سماجی کارکن کوثر عالم اور دیگر کر رہے ہیں۔