رپورٹ: نصرت اللہ طاہر زی
کابل میں ریٹائرڈ ملازمین کے ایک گروپ نے عبوری حکومت سے ایک بار پھر اپیل کی ہے کہ ان کی واجب الادا پنشنز ادا کی جائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے برسوں حکومت کی خدمت کی، لیکن اب شدید غربت اور مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
تاحال عبوری حکومت کی جانب سے پنشن کی ادائیگی کے حوالے سے کوئی نیا بیان سامنے نہیں آیا۔
عبدالواسی، جو کہ ایک ریٹائرڈ پنشنر ہیں اور ماضی میں سرکاری اسکول میں استاد کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، اپنی سات رکنی خاندان کی واحد کفیل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پنشن نہ ملنے کی وجہ سے وہ سخت معاشی بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ "پنشنرز کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سب اسلامی امارت سے پنشن کی ادائیگی کے منتظر ہیں، لیکن کچھ ہو نہیں رہا۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے۔”
میر ویس مقامی سرکاری ورکر کا کہنا کہ "ایک فرمان جاری ہوا تھا، لیکن اس پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ ججوں نے ہمیں بتایا تھا کہ پنشن کا عمل شروع ہوگا، اور ہم نے چھ مہینے انتظار کیا۔ اب جب جج موجود ہیں، تو پنشن ڈائریکٹوریٹ کہتا ہے کہ وہ ‘نارم’ کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ نارم کیا ہے؟”
پنشنرز کا مزید کہنا ہے کہ وہ عمر رسیدہ ہیں اور اب محنت مزدوری کے قابل نہیں رہے۔ وہ حکام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوری اقدامات کر کے ان کی پنشن جاری کی جائے۔
عبدالحکیم نے افغان حکومت سے اپیل کی کہ ہماری پنشن ادا کریں۔ اگر دل سے نہیں کرنا چاہتے تو کم از کم خدا کے واسطے ہی کر دیں۔”
عبدالخالق نے بتایا کہ”ہمیں پنشن کیوں نہیں دیا جا رہا؟ کیا ہمیں اپنا حق مانگنا جرم ہے؟ ہمیں ہمارا حق دے دیں۔ خدا کی قسم، اگر میں مر بھی جاؤں، تب بھی اپنا حق نہیں چھوڑوں گا۔”
محمد عمر نے کہا "یہ ہمیں الجھا کیوں رہے ہیں؟ ہمیں ہمارا حق کیوں نہیں دیا جا رہا؟ ہم سارا دن سڑکوں پر بھٹکتے رہتے ہیں، جیسے کھو گئے ہوں۔”
یہ پنشنرز، جنہوں نے حکومت کے مختلف شعبوں میں کئی دہائیوں تک خدمات انجام دیں، اب مایوسی اور مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
بار بار اپیلوں کے باوجود، عبوری حکومت کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ پنشنز کب ان کو ادا کی جائیں گی.