خیبر پختونخوا میں بین الاقوامی شکاریوں کے بعد اب مقامیوں کو مارخور شکار کی اجازت کیوں؟

تیمور خان

خیبر پختونخوا حکومت نے نایاب مارخور کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے بین الاقوامی شکاریوں کے ساتھ ساتھ مقامی شکاریوں کو بھی مارخور کے شکار کی اجازت دے دی ہے، تاہم مقامی شکاری مارخور کی باقیات کو بیرونِ ملک منتقل نہیں کر سکیں گے۔

غیر ملکی شکاریوں کے لیے ایک پرمٹ کی قیمت 20 ہزار ڈالر سے جبکہ مقامی شکاریوں کے لیے یہ قیمت 10 ہزار ڈالر سے شروع ہوتی ہے۔ محکمہ جنگلات، ماحولیات اور جنگلی حیات مارخور کے اعداد وشمار کے بارے میں مفروضوں سے کام لیتے ہیں۔

بین الاقوامی معاہدہ اور قانونی دائرہ

کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ اِن انڈینجرڈ اسپیشیز آف وائلڈ فونا اینڈ فلورا، جسے سائٹس ( CITES ) بھی کہا جاتا ہے، ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کے تحت رکن ممالک نایاب جانوروں کے شکار کے لیے اجازت حاصل کرنے کے پابند ہوتے ہیں اور پاکستان نے 90 کے دہائی میں اس پر دستخط کئے ہیں ۔ محکمہ وائلڈ لائف ہر سال سروے کرکے اعدادوشمار دینے کا بھی پابند ہے۔

محکمہ وائلڈ لائف کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر( ڈی ایف او ) ادریس کے مطابق، پاکستان کوسائٹس نے اعداد وشمار کی بنیاد پر سالانہ 12 مارخور کے شکار کی اجازت دی ہے۔ یہ شکار صرف بین الاقوامی شکاری ہی کر سکتے ہیں، جن میں سے چار بلوچستان، چار گلگت بلتستان اور چار خیبر پختونخوا میں شکار کیے جا سکتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں چترال کے علاقے توشی وَن، توشی ٹو، کیگا (کوہستان) اور گہریت چترال میں مارخور کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں سائٹس مینجمنٹ اتھارٹی قائم ہے، جس کا چیئرمین وفاقی وزیر برائے ماحولیات ہوتا ہے۔ نیلامی کا عمل ستمبر کے آخر میں شروع ہوتا ہے، جس میں رجسٹرڈ آؤٹ فٹرز یعنی کے فرمز حصہ لیتے ہیں، اور سب سے زیادہ بولی دینے والے کو پرمٹ جاری کیا جاتا ہے، جو بعد میں بین الاقوامی شکاریوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ شکار کا سیزن دسمبر میں شروع ہوتا ہے، کیونکہ گرمیوں میں مارخور پہاڑوں کی بلندی پر چلے جاتے ہیں اور برفباری کے بعد نیچے آتے ہیں۔

مالی سال 2024–25 کے شکار کی تفصیلات

دستیاب دستاویزات کے مطابق، رواں مالی سال میں بین الاقوامی شکاریوں کو چار پرمٹس 9 لاکھ 25 ہزار امریکی ڈالرز میں فروخت ہوئے جس میں توشی وَن میں 2 لاکھ 71 ہزار ڈالر،توشی ٹومیں 2 لاکھ 71 ہزار ڈالر، گہریت چترال میں 1 لاکھ 90 ہزار ڈالراور کیگا (کوہستان)میں 1 لاکھ 93 ہزار ڈالر میں فروخت ہوا۔ جبکہ مقامی شکاریوں کو چھ پرمٹس 2 لاکھ 46 ہزار 700 امریکی ڈالرمیں فروخت ہوئے، مقامی شکاریوں کو جن چھ جگہوں پر مارخور کے شکار کی اجازت دی گئی، ان میں دو چترال گول نیشنل پارک کے بفر زون یعنی سنگور اور جغور کے علاقے شامل ہیں۔ مزید دو پرمٹس چترال کے دیگر علاقوں میں، جبکہ ایک گومو کنڈیا کوہستان اور ایک اوچر کوہستان میں دیے گئے۔ سنگور گول میں پرمٹ 71 ہزار ڈالر میں، جغور میں 60 ہزار ڈالر میں، گومو کنڈیا میں 20 ہزار 100 ڈالر میں، اوچر کوہستان میں 10 ہزار 600 ڈالر میں، جبکہ چترال کے دونوں پرمٹس 42 ہزار 500، 42 ہزار 500 امریکی ڈالرز میں فروخت کیے گئے۔

ماارخور کی نقل و حرکت اور باڑ کا اثر

محکمہ وائلڈ لائف کے چیف کنزرویٹر ڈاکٹر محسن کے مطابق، پاکستان اور افغانستان کے درمیان باڑ لگنے سے مارخور کی نقل و حرکت رک گئی ہے۔ پہلے مارخور گرمیوں میں افغانستان اور سردیوں میں پاکستان آتے تھے، لیکن اب وہ سارا سال پاکستان میں ہی رہتے ہیں، جس سے ان کی تعداد بڑھنے میں مدد ملی ہے اور ان کی گنتی کا عمل بھی آسان ہو گیا ہے۔ اب یہ مارخور سردیوں میں کالام اور دیر جیسے علاقوں تک آتے ہیں۔

ڈی ایف او ادریس کے مطابق، مارخور کی زیادہ سے زیادہ عمر 13 سال ہوتی ہے۔ زیادہ تعداد کے باعث انہیں بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ صرف بوڑھے نر مارخور کا شکار کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ جوان مارخور کو مادہ سے ملنے نہیں دیتے، جس سے نسل کشی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ شکار کے وقت محکمہ وائلڈ لائف اور مقامی کمیونٹی کے افراد بھی شکاری کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق، کچھ بااثر افراد جنہیں شکار کا شوق ہے، انہوں نے مارخور کی بڑھتی ہوئی تعداد کو بنیاد بنا کر یہ معاملہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی زیرِ صدارت وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ میں اٹھایا۔ وہاں مقامی شکاریوں کے لیے 10 مارخور کے شکار کی اجازت کی سفارش کی گئی، جسے بورڈ نے منظور کر لیا، تاہم وفاقی وائلڈ لائف مینجمنٹ اتھارٹی نے یہ تعداد کم کر کے 6 کر دی۔ جب چیف کنزرویٹر سے پوچھا گیا کہ ایا سائٹس سے بھی منظوری ضروری ہے تو انہوں نے موقف اپنایا کہ صوبائی کمیٹی کو یہ اختیار حاصل ہے، لیکن حتمی منظوری وفاقی اتھارٹی ہی دیتی ہے۔

ذرائع کے مطابق، مقامی شکار کی اجازت کے حوالے سے محکمہ وائلڈ لائف میں اندرونی سطح پر خاصی گفت و شنید ہوئی۔ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اس اقدام سے بین الاقوامی شکاریوں کی دلچسپی کم ہو سکتی ہے اور آمدن بھی متاثر ہو گی۔ ڈی ایف او ادریس کے مطابق، خیبر پختونخوا میں اس وقت مارخور کی تعداد 5600 سے 5800 کے درمیان ہے، لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ کے پاس مارخور اور دیگر جنگلی جانوروں یا پرندوں کی تعداد جانچنے کے لیے کوئی جدید نظام موجود نہیں ہے اور یہ عمل تاحال مینول طریقے سے انجام دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان اعداد و شمار کی درستگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

رابطہ کرنے پر محکمہ جنگلات، ماحولیات اور جنگلی حیات کے سیکرٹری شاہد زمان نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں مارخورکی تعداد 4 ہزار سے کچھ زیادہ ہے لیکن جس وقت سائٹس نے صوبے میں چار مارخور کے شکار کی اجازت دی تھی اس وقت صوبے میں مارخورکی تعداد 300 سے 400 کے درمیان تھی تاہم اب کیس تیار کرکے وفاقی حکومت کے زریعے 20 سے 25 شکار کے پرمٹس کا مطالبہ کریں گے ۔ انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اعداد وشمار کیلئے کوئی خاص طریقہ کار موجود نہیں ہے لیکن ان کی کوشش ہے کہ اس مرتبہ مارخور کے اعداد وشمار میں بین الاقوامی اداروں کو بھی شامل کریں ۔

مارخور کے پرمٹس فروخت کرنے سے جو امدن ملتی ہے اس کا 80 فیصد حصہ مقامی ابادی کو جاتا ہے جو وہاں کے ترقیاتی کاموں پر خرچ کرتے ہے جبکہ 20 فیصد خیبرپختونخوا حکومت کو ملتا ہے.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے