تحریر: انجنیر عبدالولی خان یوسفزی، چیرمن زرغون تحریک
غزہ میں جاری ظلم، بھوک، اور معصوم بچوں کی شہادت انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ بن چکی ہے۔ آئے روز نہتے فلسطینی شہید ہو رہے ہیں، لیکن عالمی ضمیر اور خصوصاً مسلم دنیا کی خاموشی لمحۂ فکریہ ہے۔ جب ظلم پر خاموشی اختیار کی جائے، تو وہ مظلوم کی نہیں بلکہ ظالم کی حمایت بن جاتی ہے۔
مسلم امہ کا زوال: دولت کی فراوانی، ایمان کی کمی
آج کا مسلمان دنیا کی سب سے بڑی دولت، بے شمار قدرتی وسائل، اور تیل جیسے قیمتی خزانے کا مالک ہے، مگر عملی طور پر وہ مظلوم، کمزور اور بے بس دکھائی دیتا ہے۔ فلسطین اس بے بسی کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ بچے بھوک سے تڑپ کر جان دے رہے ہیں، ماں باپ اپنے جگر گوشوں کو دفن کر رہے ہیں، لیکن مسلم قیادت اور عوام خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
عرب ممالک کا دفاعی بجٹ — اور بے عملی
عرب دنیا کے اہم ممالک نے 2024–2025 کے لیے مجموعی طور پر 150 بلین امریکی ڈالر سے زائد کا دفاعی بجٹ مختص کیا ہے۔ تفصیل کچھ یوں ہے:
سعودی عرب: $78 بلین (2025)
متحدہ عرب امارات: $20–30 بلین
قطر: $9.7 بلین
الجزائر: $21.8 بلین
عراق: $6.2 بلین
کویت: $7.8 بلین
عمان: $8 بلین
مصر: $2.5 بلین
دوسری جانب اسرائیل، جو رقبے، آبادی، اور وسائل میں چھوٹا ملک ہے، اس کا دفاعی بجٹ $30.5 بلین ہے — جو کہ عرب ممالک کے مجموعی دفاعی بجٹ کا تقریباً 19.2% بنتا ہے۔
عیش و عشرت پر اربوں کی سرمایہ کاری
دفاع کے ساتھ ساتھ عرب ریاستیں خصوصاً خلیجی ممالک اربوں ڈالر عیش و عشرت کے منصوبوں پر بھی خرچ کر رہی ہیں۔ لگژری ہوٹلز، مہنگی گاڑیاں، اور غیر ملکی سیاحت و تفریح میں بے تحاشہ سرمایہ لگایا جا رہا ہے۔ جبکہ انسانی امداد کا حصہ نہایت کم ہے — صرف چند ملین ڈالر، جو کہ مجموعی اخراجات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
انسانی امداد: نمائشی یا حقیقی؟
اگرچہ کچھ ممالک جیسے قطر اور UAE نے انسانی امداد فراہم کی، مگر ان کی نوعیت نمائشی یا محدود ہے۔ قطر کی جانب سے شام میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے ماہانہ $29 ملین کی فراہمی یا غزہ کے لیے محدود امداد ان مظالم کے مقابلے میں نہایت ناکافی ہے۔
اہم سوال: دولت اور طاقت ہونے کے باوجود فلسطین کی مدد کیوں نہیں ہو پا رہی؟
یہ سوال محض سیاسی نہیں، بلکہ مذہبی، اخلاقی اور روحانی گراوٹ کی نشاندہی کرتا ہے:
- ایمانی زوال: جب ایمان کمزور ہو جائے تو امت صرف ظاہری چمک دمک پر فخر کرتی ہے، باطنی طاقت کھو دیتی ہے۔
- فلسطین کی مظلومیت: بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں، جبکہ مسلم قیادت تفریح اور آسائش میں مصروف ہے۔
- عذابِ الٰہی: امت کے پاس مال ہے، مگر مظلوم کی مدد کا جذبہ ختم ہو چکا ہے۔
- غیرت کا خاتمہ: نئی نسل صرف دنیاوی مفادات تک محدود ہو چکی ہے — قربانی، وفا، اور اخوت جیسے تصورات مٹ چکے ہیں۔
- مردہ ضمیر: مسلمانوں کے پاس عالی شان مکانات، غیر ملکی تعلیم، اور پرتعیش گاڑیاں سب کچھ ہے — مگر فلسطین کے بچے آج بھی پیاسے اور بے بس ہیں۔
نتیجہ: آواز اٹھانی ہو گی
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی خاموشی توڑیں۔ ظلم کے خلاف بولنا صرف اختیار نہیں، فرض ہے۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
"خاموشی ظالم کا ساتھ ہے، اور آواز مظلوم کا ہتھیار!”