جامعہ دارالعلوم حقانیہ اور حقانی خاندان کا تفتیشی عمل پر عدم اطمینان کا اظہار ، جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنانے کا مطالبہ کر دیا

رپورٹ(CBN247)

       جامعہ دارالعلوم حقانیہ ، خاندان حقانی ،نائب مہتمم مولانا راشد الحق سمیع اور سیاسی جانشین مولانا عبدالحق ثانی نے دارالعلوم حقانیہ پر بزدلانہ وسفاکانہ حملے اور مولانا حامد الحق حقانی شہید اوردیگر شہداء کی شہادت کے حوالے سے پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا حامد الحق حقانی شہید دارالعلوم حقانیہ جیسے عظیم تعلیمی ادارے کے نائب مہتمم اور سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (س) کے امیر تھے ۔

ان کی سیاسی اور ملی خدمات ملک و ملت کے لئے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔مولانا حامد الحق شہید اپنے عظیم والد مولانا سمیع الحق شہید کے ساتھ سیاست میں عمر بھر سرگرم رہے ۔آپ 2002ء الیکشن میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ آپ نے اسمبلی میں شریعت بل سمیت اسلامائزیشن اور عوامی مسائل کو پیش کیا ۔

آپ گزشتہ تین سال سے ملک کے آئینی ادارے ”اسلامی نظریاتی کونسل” پاکستان کے ممبر بھی رہے۔ جہاں انہوں نے کئی اہم قوانین اور مسائل پر رہنمائی کی۔گزشتہ کچھ عرصہ سے علالت اور نقاہت کے باوجود کرم ایجنسی میں فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لئے قائدانہ کردار ادا کیا اور صوبائی و وفاقی حکومتوںسمیت وہاں کے مقامی رہنماؤں اور دونوں فریقین کو یقین دلایا تھا کہ علاقہ میں امن و امان کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

قیام امن کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے بگڑتے ہوئے تعلقات اور حالات پر آپ متفکر اور رنجیدہ تھے۔اس سلسلے میں آپ نے حکومتوں کے درمیان مذاکرات اور پل کا کردار ادا کرنے کی پیشکش پر لبیک کہا تھا اور خطے میں دیرپا امن کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی پر ان دنوں کام کررہے تھے ۔

بروز جمعہ 28فروری کو آپ حسب معمول نماز جمعہ کے لئے جامع مسجد میں تشریف لائے ۔نماز جمعہ کی ادائیگی اوردعا کے اختتام پر جیسے ہی آپ گیٹ سے نکلنے کیلئے اٹھے تو کسی اجنبی بدبخت شخص نے آپ کو روکا اور اسی دوران ایک زور دار بم دھماکہ ہوا جس میں مولانا حامد الحق سمیت آٹھ افراد شہید ہوئے جبکہ کئی لوگ زخمی ہوئے۔

ترجمان نے واضح کیا کہ مولانا حامد الحق حقانی شہید کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی اور عناد نہیں تھا،مدرسہ حقانیہ سے لیکر جمعیت علمائے اسلام تک ،دفاع پاکستان کونسل سے لیکر دیگر اسلامی تحریکوں تک ،خاندان سے لے کر اہل علاقہ تک سب سے دوستانہ مراسم رکھتے تھے۔

سیاست میں حصہ لینے کے باوجود اپنے والد شہید کی طرح وہ بھی اپنے وسعت ظرفی اور اخلاقی اقدار کی وجہ سے تمام طبقات میں یکساں محبوب و مقبول رہے ،مولانا مرحوم شہید پر جس بہیمانہ اور سفاکانہ انداز سے مسجد میں ان پر حملہ کیا گیا وہ انتہائی افسوسناک ہے ۔

دارالعلوم حقانیہ اس وقت عالم اسلام کا ایک عظیم علمی ،دینی، روحانی و سیاسی مرکز ہے ۔ اس پر یہ گھناؤنا و بزدلانہ حملہ اسلام اور اس کے پرامن عقائد وتعلیمات پر حملے کے مترادف ہے۔ دارالعلوم حقانیہ کی اسلامی و تعلیمی خدمات اس وقت پورے عالم میں اور بالخصوص جنوبی ایشیا وپاکستان میں ہر سمت پھیلی ہوئی ہیں۔ امن کے حوالے سے اس کا کردار تاریخی نوعیت کا ہے۔ پھر یہ وقتاً فوقتاً دارالعلوم اور اس کے اساتذہ و اکابر پر حملے کیونکر ہورہے ہیں ؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہیں۔

انہوں نے حالیہ تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چار دن گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی موثر اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس سے ہمیں قاتلوں کا کچھ سراغ مل سکے ۔دارالعلوم نے ہر ممکنہ تعاون جو اداروں کو درکار تھا وہ فراہم کیا مگر ابھی تک کوئی بھی پیش رفت نہ ہو سکی۔ہمیں اندیشہ ہے کہ مولانا حامد الحق شہیدا ور ان کے ساتھیوں کی شہادت کا معاملہ بھی روایتی انداز میں نہ لٹکایا جائے جس طرح مولانا سمیع الحق شہید کی شہادت کو چھ برس ہونے کو ہیں مگر قاتلوں کا ابھی تک کوئی اتا پتا معلوم نہ ہو سکا اور نہ ہی کوئی تحقیقات کا کوئی اطمینان بخش نتیجہ نکلا ۔

دارالعلوم حقانیہ کے حملے کے حوالے سے باقاعدہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنائی جائے اور تحقیقات کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہمیں مطمئن کیا جائے نیز اس کیس کی منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے فوری ڈیڈ لائن دی جائے ۔

اگر اس بار بھی حکومت نے اصل قاتلوں کی گرفتاری کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو اس کے بھیانک نتائج ہوسکتے ہیں۔اس سانحہ کے موقع پر ملک بھر کی مذہبی و سیاسی جماعتیں دارالعلوم کی پشت پر کھڑی ہیں۔وہ اس کیس کا حتمی نتیجہ دیکھنے چاہتے ہیں۔

ترجمان نے دنیا بھر میں دارالعلوم حقانیہ کے فضلاء ،متعلقین ،ملک بھر کے مذہبی قائدین ،ائمہ مساجد سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ وہ دینی اجتماعات میں اس عظیم سانحہ کی مذمت کریں اور جہاں جہاں ممکن ہو احتجاجی مظاہرے بھی کریں اور شہداء کے لئے دعائیں اور زخمیوں کی صحتیابی کے لئے دعا کریں۔اس عظیم سانحہ سمیت دیگر امور پر عنقریب ایک بڑا اجلاس بلایا جائے گاجس میں اس کیس پر پیش رفت کا جائزہ اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

اساتذہ مشائخ حقانیہ اور خاندان حقانی نے ملک و بیرون ملک سے جنازے اور تعزیت میں آنے والے تمام مسلمانوں ،علمائے کرام،سیاسی لیڈران ،صحافی ،دانشور،متعلقین ،طلبائے کرام ،سفارت کارسمیت مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے غم کی اس گھڑی میں شہداء اوران کے خاندان کے ساتھ دل جوئی کی۔

انہوں نے بیرون ملک رہنے والے متعلقین ،حکومتوں اور عالمی تنظیموں کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے تعزیتی پیغامات بھیجے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے