(اسلام اباد (نمائندہ خصوصی
فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز (فپواسا) اور آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (اگیگا) نے وفاقی حکومت کی جانب سے اساتذہ اور محققین کو دی جانے والی 25 فیصد ٹیکس ریبیٹ ختم کرنے کے مجوزہ اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کے اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے نظام پر دانستہ تباہ کن وار قرار دیا ہے۔
نیشنل پریس کلب اسلام اباد میں فپواسا اور اگیگا کے رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے دعویٰ کیا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے اس ٹیکسریبیٹ پر اعتراض کیا ہے، مگر حیرت انگیز طور پر اس وقت کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا جب ایف بی آر نے اربوں روپے کی قیمتی گاڑیاں خریدیں یا جب اراکین پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں میں چھ سو فیصد تک کا اضافہ کیا۔ حکومت کی یہ پالیسی یکطرفہ کفایت شعاری کی مثال ہے، جس میں اشرافیہ کو نوازا جاتا ہے جبکہ علمی نظام کو نقصان پہنچایا جاتاہے۔

یہ ٹیکس ریبیٹ سب سے پہلے2006 میں جنرل مشرف کی حکومت نے 75 فیصد کی شرح سے متعارف کروائی تھی تاکہ تحقیق اور اساتذہ کی خدمات کو فروغ دیا جا سکے 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس میں کمی کر کے 40 فیصد کر دی اور اب 2025 میں مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومت اس چھوٹ کو مکمل طور پر ختم کر رہی ہے، جو کہ علمی برادری کے ساتھ ان کی مسلسل بے اعتنائی کا ثبوت ہے۔
یہ چھوٹ کوئی عیاشی نہیں تھی بلکہ اساتذہ اور محققین کے لیے ایک ریلیف تھی جو تحقیقی مقالہ جات کی اشاعت، کیمیکل، فیلڈ ورک اور علمی سیمیناروں میں شرکت کے لیے اکثر اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ اس سہولت کے خاتمے سے اساتذہ کی حوصلہ شکنی ہو گی، تحقیق کی رفتار اور معیار متاثر ہو گا اور برین ڈرین مزید تیز ہو جائے گا، جو کہ ملک کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے۔
یہ حملہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب اعلیٰ تعلیم کا شعبہ پہلے ہی شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ وفاقی بجٹ 2018 میں 5.9 کھرب روپے تھا 2025 میں بڑھ کر 17.5 کھرب روپے ہو چکا ہے، یعنی اس دوران کل بجٹ میں ایک سو چھیانوے فیصد اضافہ ہوا، مگر اس کے باوجود اعلیٰ تعلیم کے لیے جاری ریکرنگ گرانٹ بدستور 65 ارب روپے پر منجمد ہے۔ دوسری طرف سرکاری جامعات کی تعداد 126سے بڑھ کر 160 ہو چکی ہے اور اخراجات، تنخواہیں، پنشنز اور دیگر ضروریات آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
پاکستان اقتصادی سروے کے مطابق ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا صرف 0.8 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جا رہا ہے، جبکہ اعلیٰ تعلیم پر آنے والے مالی سال میں محض 0.37 فیصد خرچ کیا جا ئے گا۔ یہ شرح یونیسکو کی چار سے چھ فیصد کی سفارشات سے کہیں کم ہے ۔ ہم اس ضمن میں ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں تعلیم پر چار فیصد بجٹ خرچ کرنے کا وعدہ کیا تھا، مگر اقتدار میں آ کر وہ وعدے پورے نہ کیے۔
انہوں نے کہا کہ ان مسائل کو بھرپور طریقے سے ہر فورم پر اُجاگر کیا۔ گزشتہ ہفتے فپواسا کا وفد قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے اجلاس میں شریک ہوا اور ٹیکس ریبیٹ کے تحفظ اور بجٹ کمی کے مسئلے پر مدلل موقف پیش کیا۔ اس کے علاوہ وفد نے پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، اور نیشنل پارٹی سمیت مختلف جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ لیکن تمام زبانی یقین دہانیوں کے باوجود تاحال کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا گیا، جس سے یونیورسٹی اساتذہ میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔
فپواسا اور اگیگا نے مشترکہ مطالبہ کیا کہ اساتذہ اور محققین کے لیے 25 فیصد ٹیکس ریبیٹ کو فوری اور مستقل بنیادوں پر بحال کیا جائے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے جاری ریکرنگ گرانٹ کو کم از کم 200 ارب روپے تک بڑھایا جائے تاکہ مہنگائی، ادارہ جاتی وسعت اور قومی ترقی کے اہداف حاصل کیے جا سکیں۔
اگر پاکستان واقعی علم پر مبنی معیشت بننا چاہتا ہے تو اسے اپنے محققین اور اساتذہ کو دیوار سے لگانے کی روش ترک کرنا ہو گی۔ وہ ملک جو اپنےاساتذہ اور محققین پر سرمایہ کاری نہ کرے، وہ دنیا میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔اساتذہ اور محققین کو عزت دیجیے، محرومیاں نہیں۔
اگر حکومت نے اساتذہ اور محققین کے مطالبات پورے نہ کیے تو فپواسا اور اگیگا ملک گیر احتجاج کی کال دے گی جو کہ تمام جامعات کی بندش سے شروع ہو کر پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنے تک بھی بات جا سکتی ہے۔