تیمور خان
خیبرپختونخوا حکومت نے ڈائریکٹوریٹ آف آرکائیوز اینڈ پبلک لائبریری سے انگریز دور کا تین ٹرکوں پر مشتمل اہم ریکارڈ غائب ہونے اور مبینہ طور پر فروخت کیے جانے کی انکوائری مکمل کر لی ہے۔ رپورٹ میں معاملے کو فوری طور پر پولیس یا اینٹی کرپشن کو مزید تحقیقات کے لیے سونپنے اور متعلقہ محکموں کے فوکل پرسنز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش کی گئی ہے۔
موجود دستاویزات کے مطابق، 12 فروری 2002 کو اُس وقت کے گورنر این ڈبلیو ایف پی نے کمشنری ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے احکامات جاری کیے، جو اس وقت کے پشاور ڈویژن کا ریکارڈ تھا۔ اس میں صوابی، پشاور، چارسدہ، مردان اور نوشہرہ شامل تھے۔ 12 مارچ 2002 کو اس وقت کے ڈائریکٹر آرکائیوز زاہد اللہ نے اسسٹنٹ ریسرچ آفیسر مکرب خان (جو اب ڈائریکٹر ہیں) کو ریکارڈ کی منتقلی اور حفاظت کی ذمہ داری سونپی۔
15 مئی 2002 کو کمشنری ریکارڈ کو آرکائیوز میں منتقل کر دیا گیا، جو تین ٹرکوں پر مشتمل تھا۔ اس میں 1880 کے انگریز دور کا ریکارڈ بھی شامل تھا، جس میں لینڈ ریونیو، عدالتی اور ڈومیسائل سے متعلقہ ریکارڈ موجود تھا۔ بعد ازاں، 20 مئی 2003 کو ڈی سی آفس کے ریکارڈ کی منتقلی کے لیے رابطہ کیا گیا اور 26 مئی 2003 کو یہ ریکارڈ بھی منتقل کر دیا گیا۔
قانون کے مطابق، آرکائیوز کا ریکارڈ کسی بھی لائبریری کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ذرائع کے مطابق یہ ریکارڈ رحمان بابا مزار میں واقع لائبریری کو منتقل کیا گیا، لیکن اس کی منظوری یا نگرانی کے حوالے سے کوئی تحریری حکم نامہ موجود نہیں ہے۔ وہاں ریکارڈ نہ صرف ضائع ہوا بلکہ کچھ حصہ غائب بھی ہو گیا۔
محکمہ اعلیٰ تعلیم نے ایک فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کمیٹی تشکیل دی، جس کی سربراہی ڈپٹی سیکرٹری لیٹیگیشن نے کی، جبکہ دیگر ارکان میں سینئر لائبریرین انور جلال، ریسرچ آفیسر منیر عالم، اور آرکائیول کیمسٹ شاہ جہان شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق، ریکارڈ کی منتقلی عام مزدوروں کے ذریعے کرائی گئی، جس سے مزید ریکارڈ بھی خراب ہو گیا۔
16 سال بعد، یعنی 2018 میں ڈائریکٹوریٹ نے ریکارڈ واپس آرکائیوز منتقل کر دیا، لیکن ذرائع کے مطابق صرف ایک ٹرک کا ریکارڈ واپس لایا گیا۔ ڈائریکٹر آرکائیوز نے 23 جولائی 2023 کو ایک افسر کو ریکارڈ محفوظ کرنے کی ذمہ داری سونپی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 21 سال تک ریکارڈ کی حفاظت کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
انکوائری رپورٹ کے مطابق، موجود ریکارڈ میں سے 220 تھیلے مکمل طور پر ضائع ہو چکے ہیں، جبکہ 14,100 فائلیں محفوظ کر لی گئی ہیں، جن میں سے 8,600 اسٹیل ریک میں اور 5,500 بکسوں میں رکھی گئی ہیں۔
مذکورہ ریکارڈ میں قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد کا ریونیو ریکارڈ بھی شامل تھا، جس میں کمشنر اور ڈی سی کو اراضی تنازعات کے فیصلوں کا اختیار حاصل تھا۔ یہ اہم ریکارڈ بھی ضائع یا غائب ہو چکا ہے۔ موجودہ ڈائریکٹر کا مؤقف ہے کہ یہ ریکارڈ ڈائریکٹوریٹ نے خود منتقل نہیں کیا، بلکہ اس وقت کی حکومت کے احکامات پر کیا گیا تھا۔
ایک پٹواری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مذکورہ ریکارڈ بہت اہم تھا، جس کی اکثر عدالتوں اور پٹوار خانوں کو ضرورت پڑتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے خود بھی اس ریکارڈ کی تلاش کی تھی، مگر زیادہ تر حصہ ضائع ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق ایک وقت میں ریکارڈ کا کچھ حصہ پشاور کے محافظ خانہ بھی منتقل کیا گیا تھا، جو کہ انتہائی خراب حالت میں تھا۔
محکمہ آرکائیوز نے 2022 تک سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ڈی آر او کو ریکارڈ کی واپسی کے لیے 9 خطوط ارسال کیے، مگر کسی نے ریکارڈ واپس نہیں لیا۔ 21 سال بعد، 20 ستمبر 2023 کو کمشنر آفس نے اس بارے میں معلومات کے لیے خط بھیجا، جس کا آرکائیوز نے کوئی جواب نہیں دیا۔
انکوائری کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ متعلقہ محکموں کے فوکل پرسنز پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جو موجودہ ریکارڈ کی فہرست تیار کرے، اور اگر کوئی ریکارڈ تلف کرنا ہو تو نیشنل آرکائیوز ایکٹ 1993 کے تحت اسے قانونی طریقے سے تلف اور محفوظ کیا جائے۔ مزید برآں، کمیٹی نے مکمل شفاف انکوائری کے لیے معاملہ پولیس یا اینٹی کرپشن کو سونپنے ۔کی سفارش بھی کی ہے