
تیمور خان
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے سابق دور میں ہونے والی خریداری میں اربوں روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ ضلع لوئر دِیر کے تیمر گرہ میڈیکل کالج اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال سے ایک ارب 40 کروڑ روپے کے متعدد آلات غائب جبکہ باقی دیگر غیر فعال ہیں ۔ کئی آلات پریکٹیکل کاپی ون (پی سی ون) میں دی گئی تعداد سے زیادہ تعداد میں خریدے گئے ہیں۔آلات کی خریداری سے متعلق ریکارڈ بھی موجود نہیں ہے فنڈز کا ضیاع کرتے ہوئے بغیر ضرورت اور ناقص کوالٹی کے آلات خریدے گئے ہیں۔
تیمرگرہ میڈیکل کالج کےقیام کیلئے 2 ارب 26 کروڑ 20 لاکھ روپے منصوبے کی منظوری 2018 میں دی گئی جس میں ضلع کے مرکزی ہسپتال کیلئے آلات خریداری کی مد میں 1 ارب 40 کروڑ 43 لاکھ روپے مختص تھے۔ اسی طرح اراضی خریداری کیلئے 40 کروڑ روپے اور دس کروڑ روپے میڈیکل کالج بلڈنگ کی تزئین و آرائش کیلئے مختص کئے گئے تھے۔ پی آئی یو اور بیسک سائنسز ڈیپاڑٹمنٹس کیلئے 35 کروڑ 78 لاکھ کی رقم مختص کی گئی تھی۔
موجود دستاویزات کے مطابق ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال دیر لوئر میں میڈیکل کالج تعمیر کے منصوبے میں ہسپتال کیلئے خریدی گئی الات کی ویری فیکشن کیلئے نومبر 2024 کو چار رکنی کمیٹی ڈاکٹر بخت سرور کی سربراہی میں تشکیل دی گئی جنہوں نے آلات کی فزیکل ویریفیکشن کے بعد اپنی رپورٹ پرنسپل میڈیکل کالج کو جمع کرادی رواں ماہ 2025 کو جمع کرادی۔ اس ہی رپورٹ کے مطابق میڈیکل آلات متعلقہ ڈاکٹروں کی بجائے کلرکس و دیگر غیر متعلقہ ملازمین کے حوالے کیے گئے ہیں جس میں سے بیشتر غیر فعال اور غائب ہیں۔ کلرک عمر خطاب نے کمیٹی کو موقف اپنایا کہ ڈیلیوری چالان کے علاوہ باقی ماندہ ریکارڈ قومی احتساب بیورو اپنے ساتھ لے گئی ہے کیونکہ نیب اسی ہی منصوبے کی انکوائری کررہی ہے اور اس ریکارڈ کی کوئی فوٹو کاپیز بھی نہیں ہے۔ جبکہ ہسپتال کے سٹور کیپر کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے یہی وجہ ہے ریکارڈ رجسٹر میں کوئی بھی انٹری نہیں کی گئی تھی اور بعد میں پرانی تاریخوں میں کچھ آلات کی انٹری کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق 5کروڑ 40 لاکھ روپے کی یورالوجی مشین غائب ہے جس کی وجہ سے یورالوجی سے متعلق کیسز کو دوسرے ہسپتالوں میں ریفر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح 15 کروڑ روپے کی ایم آر آئی مشین بھی غائب ہے۔ لیپروسکوپک مشین جس کی مالیت 1 کروڑ 90 لاکھ ہے وہ بھی غائب ہے۔ اسی طرح گیسٹرو اینٹرولوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ نے اولمپس اینڈوسکوپی مشین خریدنے کی درخواست کی تھی جو زیادہ پائیدار ہے لیکن چینی اینڈوسکوپی فراہم کی گئی جو چھ ماہ میں ہی خراب ہو گئی۔ اس کی کئی مرتبہ مرمت کی گئی لیکن وہ استعمال کے قابل نہیں ہے ۔3 کروڑ 50 لاکھ پر انسنریٹر مشین خریدی گئی اور وہ 2021 سے انسٹال نہیں کی گئی تھی تاہم کچھ ماہ اس کو پہلے سے موجود انسنریٹر مشین کے ساتھ رکھا گیا لیکن اس کو فعال بنانے کے لیے گیس کی ضرورت ہے جو وہاں پر ہے ہی نہیں۔ انیستھیزیا کی چار مشینیں خریدی گئیں لیکن انہیں ان کو متعلقہ ڈاکٹر کے حوالے کرنے کی بجائے ٹیکنیشن کو دے دیا گیا جو سالوں سے غیر فعال ہیں۔ متعلقہ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ یہ کس قسم کی مشین ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک سی ٹی سکین مشین ہسپتال میں پہلے سے موجود تھی اور 25 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک اور خریدی گئی جو مئی 2021 میں نصب کی گئی لیکن اس کو ابھی تک استعمال میں نہیں لایا گیا ہے جبکہ اس کو مستقبل میں استعمال کرنے کے لیے فرم کے ساتھ معاہدے کی مدت ختم ہو گئی ہے اور اب سالانہ 1 کروڑ 20 لاکھ روپے کمپنی کو ادا کرنے ہوں گے جو تین سال کے لیے انہیں کل 3 کروڑ 60 لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے۔ اسی طرح میمو گرافک مشین کی مالیت 5 کروڑ روپے ہے۔ اس کو پرنٹرکے ساتھ منسلک ہی نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ استعمال کے قابل نہیں ہے۔ ایک کروڑ 20 لاکھ کی سکین مشین سالوں سے غیر فعال پڑی ہے ۔آکسیجن پلانٹ ناقص اور بغیر ٹینک کے ہے جو آئی سی یو اور آپریشن تھیٹر کے ساتھ منسلک بھی نہیں ہے پانچ کروڑ 40 لاکھ مالیت کے آپریشن تھیٹر آلات بھی غیر فعال پڑے ہیں اور اس میں سے متعین کردہ تعداد سے کم آلات پڑے ہیں جبکہ وہ بھی متعلقہ ڈاکٹر کی بجائے کلرک کے حوالے کیے گئے ہیں۔
ہسپتال کے لیے 300 بیڈز، فوم اور ریکسین کی خریداری کی گئی ہے لیکن موجود تعداد اس سے کئی گنا کم ہے۔ پی سی ون میں 28 وینٹی لیٹرز خریدنے کے لیے رقم مختص کی گئی تھی لیکن خریداری 36 وینٹی لیٹرز کی ظاہر کی گئی ہے۔ ان میں سے 28 تاحال فعال نہیں ہیں بلکہ اس بات کا بھی ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ آیا یہ خریدے گئے ہیں یا کورونا وبا کے دوران ہسپتال کو عطیہ کیے گئے ہیں۔پانچ کروڑ مالیت کی سی ایس ایس ڈی اور تین کروڑ 50 لاکھ مالیت کی لانڈری سروس تین سالوں سے غیر فعال ہے اور ابتر صورتحال میں ہے اور کسی بھی ملازم کو اس کی دیکھ بھال کے لیے تعینات نہیں کیا گیا۔
اس سے قبل اپریل 2023 میں محکمہ صحت نے ایک شکایت پر فیکٹ فائنڈنگ انکوائری چیف پلاننگ افیسر قیصر عالم کی سربراہی میں کی تھی جس میں ڈاکٹر اکرام اللہ اور ڈاکٹر صادق شاہ بھی شامل تھے جنہوں نے پراجیکٹ ڈائریکٹر سمیت دیگر کاموں کو کلین چٹ دیدیا تھا لیکن موجودہ رپورٹ میں سابقہ انکوائری کمیٹی کا بھی پول کھول دیا گیا ۔
اس بابت تیمرگرہ میڈیکل کالج کے پرنسپل نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انہیں رپورٹ موصول ہوئی ہے جس پر مزید عملدرامد ہوگا جبکہ سیکرٹری صحت عدیل شاہ نے بتایا کہ وہ اس پر متعلقہ افیسرز سے ریکارڈ طلب کرکے کارروائی کریں گے ۔ اسی منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شوکت اللہ کا موقف جاننے کیلئے ان سے رابطے کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہ ہوسکا