
تیمور خان
ذرائع ابلاغ کے پلیٹ فارمزاورعوامی اجتماعات میں شفافیت اور کرپشن کے خلاف جہاد کرنے کی دعویدار خیبر پختونخوا میں برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لیے قرض پر لیے جانے والے اربوں روپے کے فنڈ میں بے قاعدگیوں پر نہ صرف خاموشی اختیار کی بلکہ ایک قدم آگے جا کر اسے قانونی تحفظ بھی دے ڈالا۔
اگرچہ مختلف صوبائی محکموں نے اس پر تحریری اعتراضات اٹھائے لیکن وفاقی وزیر برائے سٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز انجنیئرامیر مقام کے بیٹے کی تعمیراتی فرم (ایم ایس اعتماد بلڈرز اینڈ کمپنی ) کو فائدہ پہنچانے کے لیے صوبائی کابینہ کے کندھوں کو استعمال کیا گیا جس نے فنڈز میں اضافے کی منظوری دی۔
تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے 2019ء میں اِنٹی گریٹڈ ٹور اِزم زونز (کے آئی ٹی ای جسے کائٹ بھی کہا جاتا ہے) منصوبے کے لیے ورلڈ بینک سے 10 کروڑ ڈالر قرضہ لیا۔ اُس وقت ڈالر کی پاکستانی کرنسی میں قیمت 140 روپے تھی اس طرح پاکستانی کرنسی میں یہ قرضہ 14 ارب روپے بنا۔ اس منصوبے میں صوبائی حکومت نے بھی 3 ارب روپے ڈالے جس سے اس منصوبے کے کُل فنڈز 17 ارب روپے ہو گئے۔ اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دو پراجیکٹ منیجمنٹ یونٹس بنائے گئے: ایک کمیونیکیشن اینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو) ڈیپارٹمنٹ میں جبکہ دوسرا محکمہ سیاحت میں۔ اس منصوبے کے تحت ضلع سوات میں منکیال کے 23 کلومیٹر روڈ کے لیے 3 ارب 48 کروڑ روپے جبکہ ضلع ایبٹ آباد کے علاقہ ٹھنڈیانی میں 24 کلومیٹر سڑک کی تعمیر کے لیے 2 ارب 58 کروڑ 45 لاکھ روپے کی منظوری دی گئی جو کل 6 ارب 6 کروڑ 54 لاکھ 46 ہزاربنتے ہیں۔
لیکن ستمبر 2022 میں ٹینڈر کے ذریعہ ان دونوں منصوبوں کا ٹھیکہ 8 ارب 74 کروڑ 93 لاکھ پر دیا گیا۔ منکیال کی سڑک کی تعمیر کا ٹھیکہ 5 ارب 75 کروڑ 52 لاکھ جبکہ ٹھنڈیانی سڑک کا ٹھیکہ 2 ارب 99 کروڑ 41 لاکھ پر دیا گیا جو اصل پریکٹیکل کاپی ون (پی سی ون) سے 2 ارب 68 کروڑ روپے زیادہ ہے۔
پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے مینول فار ڈیویلپمنٹ پراجیکٹس کی ’جنرل گائیڈ لائنز فار پراسسینگ اینڈ اپرویل آف پی سی ون‘ کی سیکشن 4 کے مطابق کسی بھی منصوبہ کے لیے پی سی ون میں متعین کردہ لاگت میں 15 فیصد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن کائٹ کے ان منصوبوں میں 45 اضافہ کیا گیا جو سراسر غیر قانونی ہے۔
عذرِ گناہ بد تر از گناہ کے مصداق سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ نے اس قانونی بے ضابطگی کو دور کرنے کے لیے تین ماہ کے اندر ہی 10 ارب 70 کروڑ روپے کا نظر ثانی شدہ پی سی ون تیار کر کے محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کو بھجوایا جس نے اس دستاویز پر 100 سے زائد اعتراضات لگا کر اسے واپس بھجوا دیا۔ اُس وقت محکمہ سیاحت نے سوالات اٹھائے کہ کس قانون کے تحت 2 ارب 68 کروڑ اضافی رقم پر ٹھیکہ دیا گیا ہے، اس منصوبے کے لیے لیا گیا قرض کس طرح واپس کیا جائے گا، نیز محکمہ سیاحت کا کہنا تھا کہ اس کی ٹیکنکل منظوری بھی نہیں لی گئی ہے۔
مارچ 2024ء میں خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے پانچ ماہ بعد اگست کے وسط میں ’’صوبائی حکومت کے مبینہ کرپشن میں ملوث ہونے کی بناء‘‘ پر مستعفی ہونے والے ورکس اینڈ کمیونیکیشن کے وزیر شکیل احمد خان نے انہی منصوبوں کی تحقیقات شروع کی تھیں۔ انہوں نے پارٹی کی احتساب کمیٹی کو بھیجے گئے ایک مراسلہ میں موقف اختیار کیا تھا کہ اعتماد بلڈرز کو غیر قانونی طور پر ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب انہوں نے تحقیقات کے سلسلہ میں متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو محکمہ کے سیکرٹری نے انہیں ریکارڈ فراہم نہیں کیا جس پر انہوں نے دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا تو انہیں کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ کے احکامات پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی سربراہی میں کمیٹی بنائی جا چکی ہے اس لیے وہ اس تحقیقات کو بند کر دیں۔
آزاد ڈیجیٹل کے پاس موجود 13 اگست 2024ء کو پراونشل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (پی ڈی ڈبلیو پی) کے جاری ہونے والے مِنٹس آف دی میٹنگ کے مطابق دونوں منصوبوں پر کل 36 اعتراضات اٹھائے گئے تھے جن میں سے صرف 20 کے جوابات دیے گئے تاہم مںٹس کے مطابق ٹھنڈیانی روڈ کے نظر ثانی شدہ پی سی ون میں قیمت کو بڑھا کر 4 ارب 48 کروڑ 85 لاکھ 69 ہزار اور منکیال روڈ کی لاگت 6 ارب 21 کروڑ 80 لاکھ 99 ہزار تک کر دی گئی جو کل 10 ارب 70 کروڑ 66 لاکھ 68 ہراز روپے بنتے ہیں۔
پی ڈی ڈبلیو پی نے فیصلہ کیا کہ اصل پی سی ون سے اضافی رقم پر ٹھیکہ دے کر اس کی منظوری کابینہ سے لی جائے۔ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو خود جا کر معائنہ کرے، نیشنل انجنیئرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک) پی سی ون انجنینرنگ اصولوں پر بننے کا سرٹیفکیٹ دے، محکمہ سی اینڈ ڈبلیو غلط پی سی ون بنانے پر نیسپاک کے خلاف کارروائی کرے جس کی وجہ سے ڈیزائن میں تبدیلی آئی، پی ڈی ڈبلیو پی منصوبوں میں تبدیلی سمیت کسی بھی چیز کی ذمہ دار نہیں ہے۔
لیکن ان تمام تحفظات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کابینہ نے رواں ماہ کی 6 تاریخ کو اپنی 17 ویں میٹنگ میں دونوں منصوبوں کو 10 ارب 36 کروڑ پر منظور کر کے نہ صرف اسے قانونی تحفظ فراہم کر دیا بلکہ انتہائی دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی اینڈ ڈی کی جانب سے کنسلٹنٹ پر لگائی جانے والی پینلٹی (جرمانہ) کو بھی ختم کر دیا۔ نیز فنڈز کے لیے ورلڈ بینک سے بھی رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ڈالر کی قیمت بڑھ جانے سے اس منصوبہ کے لیے مختص رقم بھی پاکستانی روپے میں بڑھ گئی ہے اس اضافی رقم کو بھی مدنظر رکھا جائے اور اگر بعد میں ضرورت پڑے تو ورلڈ بینک سے رابطہ کر لیا جائے گا۔
اس بارے میں جب اس منصوبہ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر محمد زاہد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں کسی بھی سوال کا جواب دینے کی بجائے موقف اختیار کیا کہ یہ ٹیکنیکل معاملہ ہے لہذا اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے سیاحت زاہد چن زیب نے رابطے پر کہا کہ کابینہ میں ایسا کوئی معاملہ زیر غور آیا ہی نہیں ’’بلکہ انہیں اوپر سے احکامات آئے تھے کہ اس منصوبوں کے لیے فنڈز جاری کر دیے جائیں تاکہ اس کو بر وقت مکمل کیا جا سکے۔‘‘