خصوصی فیچر رپورٹ
پاکستان کو 1947 میں آزادی ملی، لیکن کیا ہم واقعی آزاد ہوئے؟ زرغون تحریک کے چئیرمین اور محکمہ آبپاشی خیبرپختونخوا کے سابق سپرنٹنڈنگ انجینئر، عبدالولی خان یوسفزئی نے اپنی تازہ تحقیقی و تکنیکی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان آج بھی معاشی، انتظامی اور توانائی کی غلامی میں جکڑا ہوا ہے — اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ملک قحط، افلاس اور اندھیروں کی دلدل میں دھنس سکتا ہے۔
آزادی یا فریب؟
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے عوام کو جمہوریت کے نام پر خوش فہمی میں رکھا گیا، جبکہ اقتدار پر ہمیشہ برطانوی تربیت یافتہ بیوروکریسی، جاگیردار طبقہ اور اشرافیہ قابض رہی۔ نتیجہ: ہم “غلاموں کے غلام” بن چکے ہیں۔
معاشی غلامی: قرضوں کا جال
ملک کا مجموعی قرضہ 2025 تک 80 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہر شہری تقریباً 3 سے 4 لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ یہ قرض ترقیاتی منصوبوں کے بجائے کرپشن، عیاشی اور شاہانہ طرزِ زندگی پر خرچ ہوا۔
IPPs: توانائی کے استعماری معاہدے
رپورٹ میں 1994 کی پرائیویٹ پاور پالیسی کو پاکستان کی توانائی خودمختاری کا قاتل قرار دیا گیا ہے۔ 30 سال میں نجی پاور کمپنیوں کو 12 سے 15 کھرب روپے ادا کیے جا چکے ہیں — چاہے بجلی استعمال ہو یا نہ ہو، حکومت کو ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔
یوسفزئی کے مطابق اگر یہی رقم ڈیمز کی تعمیر پر لگائی جاتی تو پاکستان:
100 فیصد توانائی میں خودکفیل ہوتا
بجلی کی قیمت 3-4 روپے فی یونٹ ہوتی
برآمدات میں 20–25 ارب ڈالر سالانہ اضافہ ممکن تھا
بجلی عوام کو مفت یا سستے نرخوں پر فراہم کی جا سکتی تھی
اشرافیہ کی مراعات: عوام پر بوجھ
تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف اشرافیہ کی مراعات پر سالانہ 250 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں:
1 لاکھ سے زائد سرکاری گاڑیاں
2 لاکھ سے زائد اہلکار مفت بجلی حاصل کرتے ہیں
سرکاری رہائش اور مرمت کے اخراجات میں کروڑوں کا ضیاع
زرعی مافیا کا راج
رپورٹ میں چینی اور گندم اسکینڈلز کو “منظم معاشی جرم” قرار دیا گیا ہے۔ کسان کو کم قیمت پر گندم دی جاتی ہے، لیکن مہنگی گندم درآمد کرکے مافیا اربوں روپے کماتا ہے۔ نتیجہ: کسان غریب، عوام مہنگائی کا شکار۔
پانی کا بحران: ذخائر میں ناکامی
پاکستان میں صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے، جبکہ:
بھارت 120 دن
چین 200 دن
امریکہ 300 دن
عالمی اوسط 90 سے 120 دن
ہر سال 28 MAF پانی سمندر میں ضائع ہوتا ہے، اور شدید سیلابوں میں یہ نقصان 180 MAF تک جا پہنچتا ہے۔
فلڈز کے تباہ کن اثرات
2010:
پانی ضائع: 180 MAF
مالی نقصان: 43 ارب ڈالر
متاثرہ افراد: 2 کروڑ
2022:
پانی ضائع: 150–160 MAF
مالی نقصان: 30 ارب ڈالر
متاثرہ افراد: 3 کروڑ 30 لاکھ
رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ 2025 میں قحط جیسے حالات جنم لے سکتے ہیں، کیونکہ ڈیمز کی کمی اور ناقص انتظامیہ خوراک اور پانی کے شدید بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
مالیاتی نقصان کا خلاصہ:
IPPs کو ادائیگیاں: 1,500 ارب روپے
اشرافیہ مراعات: 250 ارب روپے
زرعی اسکینڈلز: 400–500 ارب روپے
کل نقصان: تقریباً 2,000 ارب روپے سالانہ
سفارشات:
فوری طور پر ڈیمز کی تعمیر شروع کی جائے
تمام IPP معاہدوں کا فرانزک آڈٹ کیا جائے
اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ کر کے عوامی ترقی پر سرمایہ لگایا جائے
زرعی اصلاحات کے ذریعے خوراک میں خودکفالت حاصل کی جائے
قرضوں پر انحصار ترک کیا جائے
عوام میں شعور بیدار کیا جائے تاکہ وہ اپنی بقا کی جنگ خود لڑیں
انجینئر عبدالولی یوسفزئی کا انتباہ:
“ہم آج بھی غلام ہیں — قرضوں کے، اشرافیہ کے، اور اپنی ہی پالیسیوں کے۔ اگر ہم نے ابھی اصلاح نہ کی تو مستقبل میں ہمیں بھوک، اندھیرا اور بحران ہی نصیب ہوگا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم جاگیں، سوال کریں اور وسائل کو محفوظ کریں۔”