ادارہ جاتی بدعنوانی اور پولیس کی ناکامی سے جرائم کی سرپرستی — ایک چشم کشا عوامی رپورٹ

کراچی (رپورٹ: انجنیر عبدالولی خان یوسفزی، چیئرمین زرغون تحریک)

پاکستان بھر میں جرائم کی روز افزوں لہر نے عوام کو عدم تحفظ کے گہرے احساس میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان جرائم کے پیچھے صرف عام جرائم پیشہ افراد نہیں بلکہ ادارہ جاتی بدعنوانی، پولیس کی نااہلی اور سیاسی سرپرستی جیسے سنگین عوامل کارفرما ہیں۔

وائرل ویڈیو نے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں کراچی کی ایک گلی میں موٹرسائیکل سوار ڈاکو نے خاتون کو لوٹنے کی کوشش کی۔ مزاحمت پر ڈاکو نے خاتون کو زمین پر گرا دیا۔ اس واقعے نے پورے معاشرے میں ہلچل مچا دی۔ شہریوں کی رائے ہے کہ "یہ صرف ایک عام واردات نہیں، بلکہ یہ کچھے اور پکے ڈاکوؤں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔”

بڑھتے جرائم اور پولیس کی خاموشی

رپورٹ کے مطابق کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں روزانہ اسٹریٹ کرائمز، قتل، ڈکیتی، اغواء اور جنسی تشدد جیسے جرائم ہو رہے ہیں۔ ان میں پولیس اور بااثر افراد کی سرپرستی کے ثبوت عوامی سطح پر موجود ہیں۔ درج شدہ ایف آئی آرز، میڈیا رپورٹس اور عوامی مشاہدے میں پولیس اہلکاروں کا جرائم میں ملوث ہونا کوئی نئی بات نہیں۔

پولیس کا بھاری بجٹ، مگر عوام غیر محفوظ

پاکستان کی چاروں صوبائی پولیس فورسز پر اربوں روپے کا سالانہ بجٹ خرچ کیا جاتا ہے:

پنجاب پولیس: 180 ارب روپے

سندھ پولیس: 130 ارب روپے

خیبرپختونخوا پولیس: 100 ارب روپے

بلوچستان پولیس: 60 ارب روپے

اس کے باوجود پولیس میں کرپشن، تفتیش میں بددیانتی، ملزموں کی رہائی میں معاونت اور سیاسی دباؤ پر کام کرنے جیسے الزامات عام ہیں۔

کچے اور پکے ڈاکو — نیا گٹھ جوڑ

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف "کچے” ڈاکو ہی خطرناک نہیں بلکہ "پکے” ڈاکو، یعنی وردی میں ملبوس یا سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے افراد، زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں۔ یہی عناصر نہ صرف خود جرائم میں ملوث ہیں بلکہ کچے ڈاکوؤں کو اسلحہ، گاڑیاں، معلومات اور تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔

وراثتی جرم اور ادارہ جاتی بدعنوانی

رپورٹ میں ایک نئی اصطلاح "وراثتی بدعنوانی” کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یعنی ایک بدعنوان پولیس اہلکار کے بیٹے کو بغیر کسی چھان بین کے اسی محکمے میں بھرتی کر لیا جاتا ہے۔ ایسے ہی کرپٹ سیاستدان کے بچوں کو بھی بغیر احتساب کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ یہ عمل نسل در نسل جرم اور بدعنوانی کو فروغ دے رہا ہے۔

اہم تجاویز

  1. جس افسر یا اہلکار پر جرم یا کرپشن کا ثبوت ہو، اُس کے اہلِ خانہ کو سرکاری نوکری نہ دی جائے۔
  2. کرپشن کے مقدمات میں ملوث سیاستدانوں کے بچوں کو انتخابات سے پہلے سخت چھان بین سے گزارا جائے۔
  3. پولیس و سیاسی لیڈروں کے اثاثوں، جائیدادوں، بیرون ملک اثاثوں اور آمدن سے زائد جائیداد کا مکمل آڈٹ کیا جائے۔ یہ آڈٹ نیب یا سپریم جوڈیشل آڈٹ کمیشن کے تحت ہو۔

شہداء کے ورثاء کا کیا؟

رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ اُن 102 افراد کے بچوں کا کیا ہوگا، جو ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے گئے؟ کیا ریاست ان بچوں کی کفالت کرے گی؟ اگر انصاف نہ ملا تو یہی بچے کل کے انتقام میں پلنے والے مجرم بن سکتے ہیں۔

نتیجہ اور اختتامی پیغام

رپورٹ کے مطابق اگر ان سنگین مسائل پر فوری اصلاح نہ کی گئی تو بدعنوانی کا یہ سلسلہ معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر دے گا۔ پولیس نظام میں شفافیت، سیاسی احتساب، اور عوامی نگرانی کے بغیر بہتری ممکن نہیں۔ اختتامی پیغام میں کہا گیا ہے:
"قومیں انصاف سے قائم رہتی ہیں، اور اگر ظلم کے نظام کو تحفظ دیا جائے تو ہر دروازے پر ڈاکو ہوگا، اور ہر بیٹے کی آنکھ میں انتقام کا شعلہ ہو گا۔”

یہ رپورٹ میڈیا، سول سوسائٹی اور قانون ساز اداروں کے لیے ایک پکار ہے — کہ اب خاموش رہنے کا وقت نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے