سندور سے تندور تک: بھارت کی جارحیت اور پاکستان کا قانونی دفاع

تحریر: ایڈوکیٹ صیّاد حسین ترکئ

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی تاریخ کشیدگی، جنگوں اور عارضی امن معاہدوں سے عبارت ہے۔ 1947 کی تقسیم کے بعد سے دونوں ممالک نے کشمیر کے مسئلے پر متعدد جنگیں لڑیں، جن میں 1947-48، 1965، اور 1971 کی جنگیں شامل ہیں۔ ان تنازعات کے بعد اقوام متحدہ کی قرارداد 47 (1948) کے تحت کشمیر میں رائے شماری کی تجویز دی گئی، جس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ 1949 کا کراچی معاہدہ اور 1972 کا شملہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی اور باہمی مذاکرات کے لیے اہم سنگ میل تھے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں بھارت کی جانب سے ان معاہدوں کی خلاف ورزیوں نے خطے میں عدم استحکام کو بڑھاوا دیا ہے۔

اپریل 2025 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے اس واقعے کا الزام پاکستان پر عائد کیا، جسے پاکستان نے مسترد کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اس واقعے کی غیر جانبدار، شفاف اور قابل اعتماد تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی ۔ تاہم، بھارت نے اس پیشکش کو نظر انداز کرتے ہوئے "آپریشن سندور” کے تحت پاکستان کے مختلف علاقوں پر حملے کیے، جس کو افواج پاکستان بالخصوص پاک فضائیہ نے ملکی دفاع کے خاطر بھارت کیلئے آگ کا تندور بناکر بھارت کو سفید جھنڈے لہرانے پر مجبور کیا۔ ان حملوں میں 31 سے زائد پاکستانی شہری، جن میں خواتین اور بچے شامل تھے، شہید ہوئے ۔ اس کو پاکستان نے پوری دنیا اور اقوام متحدہ کے سامنے رکھا لیکن بھارت جنگی جنون و حملوں سے باز نہیں آیا اور مسلسل اپنے ناپاک عزائم کے تحت شہری علاقوں، عبادت گاہوں، پانی کے ذخائر، اور زرعی زمینوں کو نشانہ بنایا جو بین الاقوامی قوانین ،انسانی حقوق، خاص طور پر جنیوا کنونشنز، کی صریح خلاف ورزی ہے۔

بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت، شہریوں، بچوں، خواتین، اور غیر فوجی تنصیبات کو جنگی کارروائیوں سے محفوظ رکھا جانا لازم ہے۔ بھارت کی حالیہ کارروائیاں ان اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق، ہر ملک کو اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ پاکستان نے اسی حق کے تحت بھارت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، جس میں درجنوں اسرائیل کے بنائے گئے بھارتی ڈرونز کو مار گرایا گیا اور متعدد رافیل طیاروں کو زمین بوس کیا گیا۔

پاکستان کی جوابی کارروائی نے نہ صرف دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا بلکہ خطے کے عوام کے دل بھی جیت لیے۔پاکستان نے آپریشن سندور کے جواب میں نہایت پیشہ ورانہ و تربیت یافتہ دفاعی کارروائی کرتے ہوئے نماز فجر کے وقت آپریشن "بنیان المرصوص” کے نام سے ایک کامیاب آپریشن کیا جس میں کئی ائیر بیس اور ڈیفنس سسٹم کا نشانہ بنایا جہاں سے پاکستان پر مزائل داغے گئے تھے اور جہاں سے سندور آپریشن شروع کیا تھا اسی کو پاک فضائیہ نے آگ کا تندور بنا کر خاموش کیا اور پیغام دیا کہ ہم اپنی زمین کی حفاظت جانتے اور سمجھتے ہیں ۔
پاکستانی آپریشن کو "بنیان المرصوص” کا نام دیا گیا ہے، جو قرآن کی سورۃ الصف (61:4) سے لیا گیا ہے:

"إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ”

ترجمہ: "بیشک اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر (ایسے لڑتے ہیں) گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔یہ نام علامتی طور پر قومی یکجہتی، قوت اور دفاعی مضبوطی کی عکاسی کرتا ہے۔ پاک فضائیہ کی شاندار کارکردگی نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے، لیکن اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔بھارت کا جنگی جنون اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین، اور او آئی سی کو چاہیے کہ وہ بھارت کی جارحیت کا نوٹس لیں اور خطے میں امن و امان کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کریں۔پاکستان ایک پرامن ملک ہے جو خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے۔ تاہم، اگر اس کی خودمختاری اور سلامتی کو خطرہ لاحق ہو تو وہ اپنے دفاع کا مکمل حق رکھتا ہے۔ بھارت کی حالیہ جارحیت نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کی ان کارروائیوں کا سخت نوٹس لے اور پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو کر امن و انصاف کا ساتھ دے۔

تحریر: ایڈوکیٹ صیّاد حسین ترکئ
sayyad.law@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے