پاکستانی دہشت گردگروپوں کا نیا اتحاد اور کالعدم تحریک طالبان کی تنظیم نو ۔حکومت کے لئے چیلنج یا اندرونی اختلافات

(حق نواز خان سے )پاکستان میں جاری بدامنی کی لہر میں آئے روز اضافہ دیکھا جارہاہے جس پر قابو پانے حکومت کے لئے ایک بہت ہی بڑا چیلنج ہے ایک طرف حکومت نے مسلح گروہوں کے خلاف اپنی کاروائیاں تیز کردی تو دوسری طرف پاکستان کے اندر بر سر پیکار مختلف مسلح گروپ آپس میں اتحاد بنارہے ہیں اور تنظیم نو کررہے ہیں حالیہ دنوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے 36 ولایتوں یا ضلعوں کے لئے اپنے کمانڈروں کا اعلان کردیا – شمالی وزیرستان سے حال ہی میں شامل ہونے والے کمانڈر علی داوڑ سمیت 17 رکنی رہبری یا مرکزی شوری کا اعلان کردیاہے ۔ جن ولایتوں یا اضلاع کے لئے کمانڈروں اور معاونین لا اعلان کیا گیا ہے اس میں اکثریت خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے صوبوں سے ہیں تاہم سندھ کی دارلحکومت کراچی ، پنجاب اور گلگت بلتستان کے لئے بھی تنظیمی ڈھانچے کا اعلان کردیا ہے جس وقت تحریک طالبان نے اپنے تنظیمی ڈھانچے کا اعلان کیا اسی وقت دو الگ مسلح گروپوں نے بھی اتحاد کا اعلان کیا شمالی وزیرستان سے حافظ گل بہادر گروپ اور ضلع خیبر سے لشکر اسلام نے متحد ہو کر لڑنے کا اعلان کیا گیا ۔ تحریک طالبان، حافظ گل بہادر، لشکر اسلام، بلوچ علیحدگی پسند مسلح گروہوں کے درمیان پہلے سے ایک غیر اعلانیہ خاموش اتحاد موجود تھا ۔ تاہم اس نئے اتحاد کے قیام کے بعد ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ ان گروپوں کا رحریک طالبان کے ساتھ اختلافات ہیں تاہم رسمی طور پر ابھی تک اس بارے کچھ کہا نہیں گیا ہے ۔ دوسری طرف تحریک طالبان نے اعلان کیا ہے کہ تنظیم نو سے ان علاقوں میں حکومت کے خلاف لڑائی میں تیزی لائی جائے گی ۔ ان گروپوں کے درمیان اپنے زیراثر علاقوں میں مداخلت بنیادی وجہ قرار دیا جارہاہے ۔ اس نئے اتحاد کے اعلامیہ میں اعلان کیا گیا کہ دوسرے گروپوں کے ساتھ بھی اتحاد کے لئے بات کی جائے گی تاہم اس خطے میں سب سے فعال ٹی ٹی پی نے ابھی تک اس اتحاد کے بارے اپنا موقف ظاہر نہیں کیا ہے ۔ اختلافات ہو یا نئے اتحاد دونوں صورتوں اس خطے میں پرتشدد واقعات میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے ۔حالیہ دنوں میں پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے پشاور کا دورہ کیا تاکہ خیبرپختونخوا کے سیاسی راہنماؤں کو اعتماد میں لیکر ان مسلح گروہوں کے خلاف بھرپور کاروائ کی جائے ان واقعات کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات بھی انتہائی خراب ہوچکے ہیں اور اس کے بغیر اس جنگ میں مشکلات کی ایک وجہ یہی بھی ہے کہ پاکستان الزام لگارہاہے کہ دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے طالبان کی حکومت کے زیراثر افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہاہے تاہم افغان طالبان اسکی تردید کر رہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے