
پشاور (تیمور خان سے )خیبر پختونخوا کے محکمہ انڈسٹریز کے ٹیکنیکل ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے ایک ارب 40 کروڑ کے فنڈز کو ڈیزگنیٹیڈ اکاونٹس میں ٹرانسفر کر کے اس پر کام کرنے کی بجائے غیر قانونی طور پر منافع لیتا رہا اور منصوبوں کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی اس میں اخراجات کرتے رہے ۔سکیموں کی مدت میں دو سال تک توسیع کرنے کا مجاز سیکرٹری ہے لیکن ان کی جگہ غیر قانونی طور پر ڈائریکٹوریٹ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ وکیشنل ٹریننگ (ٹَیوٹا) پروگرامز کے منیجنگ ڈائریکٹر توسیع دیتے رہے۔
سی بی این کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق خیبر پختونخوا میں محکمہ انڈسٹریز، کامرس اینڈ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹوریٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ وکیشنل ٹریننگ پروگرامز (ٹَیوٹا) نے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی آٹھ سکیموں جس کی لاگت ایک ارب 40 کروڑ 93 لاکھ ہے کے فنڈز کو ٹیوٹا کے ڈیزگنیٹیڈ اکاونٹس میں منتقل کر دیا جس سے بظاہر اے ڈی پی کے سکمیں مکمل یا سو فیصد فنڈز کو استعمال شدہ ظاہر کیا گیا۔ لیکن وہ اس پر منافع لیتے رہے جو کہ غیر قانونی ہے ۔ جس مقصد کے لیے فنڈز جاری کیا جاتا ہے اس کے علاوہ اس کو کسی دوسرے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
آٹھ سکیموں جس کے فنڈز پر منافع لیا جاتا رہا اس میں انفراسٹرکچر فیسلیٹیز اینڈ اکیوپمینٹ ٹو دا اپ گرڈیڈ جی پی آئی ایس ٹو دی لیول آف کالج ٹیکنالوجی تیمرگرہ، تخت بھائی، صوابی، ایبٹ آباد، کوہاٹ، نوشہرہ۔ اس سکیم کی کل لاگت 72 کروڑ روپے ہے جس کی باضابطہ منظوری 8 فروری 2016 کو دی گئی جبکہ جون 2018 میں اس کی مدت ختم ہو گئی۔
اسی طرح 8 فروری 2016 کو 36 کروڑ 37 لاکھ 79 ہزار لاگت سے دوسری سکیم لائبریری کی کتابیں، فرنیچر اور مشینری کی خریدای کے لیے منظور ہوئی جس کی مدت جون 2017 میں ختم ہو گئی۔ تیسری سکیم کی منظوری 17 جون 2019 کو دی گئی جس کی لاگت 4 کروڑ 98 لاکھ 84 ہزار تھی جس سے مختلف جی پی آئی ایس کے لیے مشینری کی خریداری کرنی تھی۔ اس کی مدت جون 2020 میں ختم ہوئی ہے۔ چوتھی سکیم لوئر دِیر میں کرائے کے بلڈنگز میں گورنمنٹ ٹیکنیکل اینڈ وکیشنل سنٹرز کا قیام اور اس کے لیے فرنیچر اور آلات کی خریداری کے لیے 2 کروڑ 8 لاکھ 57 ہزار کی لاگت سے 22 جون 2019 کو سکیم منظور ہوئی جس کی مدت 30 جون 2022 کو ختم ہوئی۔
پانچویں سکیم قبائلی ضلع کُرم کے صدہ شہر میں دو گورنمنٹ ٹیکنکل انسٹیٹویٹ میں سول اور الیکٹریکل ٹیکنالوجیز کو شامل کرنے کی منظوری 22 جون 2019 کو 4 کروڑ 27 لاکھ کی لاگت سے ہوئی جس کی مدت 30 جون 2022 کو ختم ہوئی۔ میران شاہ میں 2 کروڑ 3 لاکھ 95 ہزار کی لاگت سے ووڈن میٹل سنٹر تعمیر کی منظوری 22 جون 2019 کو دی گئی جس کی مدت 30 جون 2022 کو ختم ہوئی۔ ساتواں منصوبہ 8 کروڑ 39 لاکھ کی لاگت سے جنوبی وزیرستان میں شروع کرنے کی منظوری 41 جنوری 2018 کو دی گئی جس کی مدت 30 جون 2022 میں ختم ہوئی۔ اس سکیم کے تحت پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ فاٹا میں ایڈیشنل ٹیکنالوجیز کو شامل کرنا تھا۔ ضلع باجوڑ میں گورنمنٹ کالج اف ٹیکنالوجی میں بی ٹیک پروگرام کو شامل کرنے کا منصوبہ 22 جون 2019 میں 10 کروڑ 69 لاکھ کی لاگت سے منظور ہوا جس کی مدت 30 جون 2024 کو ختم ہو گئی۔
مذکورہ منصوبے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل تھے جن پر سالوں تک ٹیوٹا نے منافع لیا اور مدت ختم ہونے کے باوجود بھی اسی ہی منصوبوں کے فنڈز کو استعمال کرتے رہے۔ قانون کے مطابق سیکرٹری انڈسٹری پرنسپل اکاونٹنگ آفیسر ہے جو ایک ایک سال دو مرتبہ کسی بھی سکیم کی مدت میں اضافے کرنے کا مجاز ہے لیکن یہاں پر ایم ڈی ٹیوٹا سکیم کی منظوری دیتا رہا جبکہ ان کے پاس اس کا اختیار ہی نہیں ہے۔
خیبرپختونخوا ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ وکیشنل ٹریننگ پروگرامز ایکٹ 2015 کے تحت ایم ڈی کے پرنسپل اکاونٹنگ آفیسر کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ ڈگزنیٹیڈ اکاؤنٹس (وہ ڈائریکٹوریٹ کا اپنا اکاونٹ ہوتا ہے جس میں پڑا فنڈز حکومت کو ظاہر نہیں ہوتا ہے ) میں پڑے فنڈز کو مالی سال ختم ہونے سے قبل اس کو محکمہ خزانہ کو سرنڈر کیا جانا ہوتا ہے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس بابت کچھ اپریل 2021 میں اکاونٹنٹ جنرل مرتضی خان نے اسان اکاونٹ استعمال نہ کرنے ، پراجیکٹس میں ایڈوانس ادائیگی کرنے اور سال کے اخر میں محکمہ خزانہ کو فنڈز سرنڈر نہ کرنے پر چیف سیکرٹری کو مراسلہ ارسال کیا تھا کہ اسمبلی فلور پر بجٹ کے بارے میں جھوٹ بولا جاتا ہے کیونکہ محکموں کے پاس اربوں روپوں کا فنڈ ڈگزنیٹیڈ اکاونٹس میں پڑا رہتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ حکومت کو بجٹ بنانے میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔
گذشتہ سال 13 اپریل کو ایم ڈی کی سربراہی میں ٹیوٹا نے ہیڈ آفس میں میٹنگ کر کے خود مان لیا ہے کہ وہ غلط کام کر رہے ہیں اور مستقبل میں وہ ایسا نہیں کریں گے جبکہ اس کے باوجود بھی انہوں نے ایکسپائرڈ منصوبوں سے فنڈ ادا کر دئیے اور اس میٹنگ کے مینٹس بھی بنائے ہیں جس میں خود انہوں نے غیر قانونی کام کرنے کو تسلیم کیا ہے۔
اس پر محکمہ نے تین رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس نے انکوائری رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ اس غیر قانونی کام میں اس وقت کے ایم ڈی پروفیسر عبدالغفار، ڈائریکٹر پی اینڈ ڈی اور ورکس انجنیئر حیدر ، ڈائریکٹر فنانس اینڈ اکاونٹس منیر گل، ڈائریکٹر مانیٹرنگ اینڈ آڈٹ نذیر احمد، ڈپٹی ڈائریکٹر پروکیورمنٹ انجنیئر حفیظ الرحمن اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر شفقت اللہ ملوث ہیں۔ان کے خلاف کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں انہیں ذمہ دارعہدے نہ دئیے جائیں جبکہ اس رپورٹ کو ان کی اے سی آرز کا بھی حصہ بنایا جائے۔ اس بابت وزیر اعلی کے معاون خصوصی برائے صنعت عبدالکریم خان نے بتایا کہ اس بارے انہیں کوئی علم نہیں ہے لیکن وہ کسی کو بھی غیر قانونی کام نہیں کرنے دیں گے اور وہ فوری طور پر کارروائی کر یں گے ۔