تشدد کا شکار بچپن: اسکولوں اور گھروں میں بچوں پر ظلم کے سنگین اثرات، زرغون تحریک کی جامع رپورٹ جاری

پشاور (نمائندہ خصوصی)

زرغون تحریک کے چیئرمین اور سابق سپرنٹنڈنگ انجینئر محکمہ آبپاشی خیبرپختونخوا، انجینئر عبدالولی خان یوسفزئی نے بچوں پر اسکولوں میں ہونے والے تشدد کے معاشرتی اثرات پر مبنی ایک جامع رپورٹ پیش کی ہے، جس میں تشدد کو نہ صرف بچوں کے لیے خطرناک بلکہ معاشرے کی اجتماعی تباہی کا پیش خیمہ قرار دیا گیا ہے۔

بچوں پر اسکولوں میں تشدد کے تباہ کن اثرات

رپورٹ کے مطابق اسکولوں میں جسمانی اور ذہنی تشدد بچوں کو مستقل خوف، عدم تحفظ اور احساسِ کمتری میں مبتلا کرتا ہے، جو بعد ازاں ذہنی بیماریوں جیسے ڈپریشن، انزائٹی اور پی ٹی ایس ڈی کا سبب بنتے ہیں۔

تشدد سے تعلیم سے نفرت جنم لیتی ہے، جس کا نتیجہ ترکِ تعلیم، بیروزگاری، جرائم، اور معاشرتی انحراف کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسے افراد بعد ازاں پرتشدد والدین یا شریکِ حیات بن جاتے ہیں، جس سے گھریلو زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔

رپورٹ میں خودکشی کی بڑھتی شرح کو بھی بچوں پر جاری تشدد سے جوڑا گیا ہے۔

تشدد کا دائرہ اسکول سے معاشرے تک

رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ جن بچوں کو اسکول یا گھر میں توہین و تشدد کا سامنا ہوتا ہے، وہ بالغ ہو کر جرائم پیشہ، شدت پسند اور بے حس شہری بننے کے امکانات رکھتے ہیں۔ ایسے افراد معاشرے کے بگاڑ کا بڑا سبب بنتے ہیں۔

پاکستان، افغانستان اور دیگر غریب ممالک میں صورتحال

رپورٹ کے اعداد و شمار تشویشناک ہیں:

2023 میں پاکستان میں بچوں پر تشدد کے 4,213 کیسز رپورٹ ہوئے، یعنی روزانہ اوسطاً 11 بچے متاثر ہوئے۔

2024 کے ابتدائی چھ ماہ میں 1,630 کیسز سامنے آئے جن میں 862 جنسی تشدد، 668 اغوا، اور 18 کم عمری کی شادیوں کے شامل تھے۔

2019 سے 2023 کے درمیان رپورٹ شدہ کیسز میں پنجاب (62٪) سب سے آگے، اس کے بعد خیبرپختونخوا (25.1٪)، سندھ (8.5٪) اور بلوچستان (5٪) شامل ہیں۔

افغانستان میں "بچہ بازی” کی رسم اور سب صحارا افریقہ میں جنسی استحصال کی بلند شرح کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔

تشدد کے بنیادی اسباب

رپورٹ کے مطابق بچوں پر تشدد کی جڑیں کئی سطحوں پر پھیلی ہوئی ہیں:

  1. اسلامی تعلیمات سے انحراف
  2. قانون کا کمزور نفاذ
  3. غربت، لاعلمی، اور سماجی بےحسی
  4. ثقافتی روایات جو تشدد کو تربیت تصور کرتی ہیں

زرغون تحریک کی سفارشات

  1. قانونی اصلاحات: تشدد کے خلاف سخت قوانین اور ان کا مؤثر نفاذ
  2. اساتذہ و والدین کی تربیت: مثبت تربیت کے اصولوں پر مبنی ورکشاپس
  3. رپورٹنگ کا محفوظ نظام: بچوں کی شکایات کے لیے قابلِ بھروسا پلیٹ فارمز
  4. اسلامی تعلیمات کا عملی نفاذ: مدارس و اسکولوں میں بچوں کے حقوق کی تعلیم
  5. آگاہی مہمات: میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کے ذریعے شعور بیداری

انجینئر عبدالولی خان یوسفزئی نے زور دیا کہ صرف قوانین بنانا کافی نہیں، بلکہ سماجی رویوں میں تبدیلی اور اسلامی اقدار کا نفاذ ہی اصل حل ہے۔ زرغون تحریک اس جدوجہد کو ایک قومی فریضہ سمجھتی ہے اور اپنی کاوشیں جاری رکھے گی۔


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے