انجنیئر عبدالولی خان یوسفزئی: چیئرمین زرغون تحریک اور ریٹائرڈ سپرنٹنڈنگ انجینئر، ایریگیشن، خیبرپختونخواہ
ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں تعلیم کو روشنی، تربیت اور عبادت کا درجہ حاصل ہونا چاہیے، لیکن افسوس کہ آج کئی مدارس و اسکول تعلیم کے مراکز کے بجائے تشدد، خوف، اور نفسیاتی دباؤ کے گڑھ بن چکے ہیں۔ وہ جگہیں جو بچوں کی شخصیت کو سنوارنے کی آماجگاہ ہونی چاہییں، وہاں بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں — کہیں انہیں جسمانی سزائیں دی جاتی ہیں، کہیں ان کی عزتِ نفس مجروح کی جاتی ہے، اور کہیں انہیں الٹا لٹکا کر سزا دی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل دل دہلا دینے والی ویڈیوز
حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک ویڈیو میں ایک کم سن بچے کو الٹا لٹکایا گیا، جبکہ دوسرے بچے اس پر ہنسی کر رہے تھے۔ یہ منظر صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک سماجی زوال کی گواہی ہے۔ ہنستے بچے اس بات کی علامت ہیں کہ ہماری نئی نسل احساس سے عاری ہوتی جا رہی ہے۔ کیا ہم ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں درد محسوس کرنے کی صلاحیت ختم ہو جائے؟
استاد کا کردار: معمار یا جلاد؟
استاد کو روحانی باپ تصور کیا جاتا ہے، جس کا فرض صرف علم دینا نہیں بلکہ کردار سازی بھی ہے۔ بدقسمتی سے آج کئی اداروں میں اساتذہ کا رویہ نہایت سخت گیر، بے رحم اور غیر پیشہ ورانہ ہوتا جا رہا ہے۔ نتیجتاً، بچے تعلیم سے دور، اور خوف، بغاوت، یا ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
والدین اور معاشرے کی ذمہ داریاں
یہ صرف اساتذہ یا اداروں کا نہیں، بلکہ والدین اور معاشرے کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے ماحول پر نظر رکھیں جہاں ان کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اساتذہ سے رابطے میں رہیں، بچوں کے جذبات اور رویوں کو سمجھیں، اور اگر کسی قسم کا ظلم یا بدسلوکی ہو تو خاموشی اختیار نہ کریں۔
ذہنی بیمار اساتذہ: ایک نسل کی تباہی کا سبب
اکثر ایسے افراد جو بچوں پر تشدد کرتے ہیں، خود اندر سے زخمی اور ذہنی طور پر بیمار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی محرومیوں، اذیتوں اور ماضی کے زخموں کا بدلہ معصوم بچوں سے لیتے ہیں۔ ان کے زہریلے رویے بچوں کی شخصیت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں، جو یا تو نفرت، انتہا پسندی، یا نفسیاتی بیماریوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات: محبت، شفقت اور اخلاق کا پیغام
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:
“تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر سلوک کرے۔”
اسلام بچوں سے شفقت، احترام اور نرمی کا درس دیتا ہے۔ حضرت علیؑ کا قول ہے:
“جس بچے کو محبت اور حکمت سے سکھایا جائے، وہ قوم کا سرمایہ بنتا ہے۔”
اصلاحِ نظامِ تعلیم: زرغون تحریک کے مطالبات
ہم ایک ذمہ دار اور محفوظ تعلیمی نظام کی تشکیل کے لیے درج ذیل اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں:
1. نفسیاتی و جسمانی جانچ:
ہر استاد کی ذہنی، جسمانی، اور نفسیاتی حالت کا باقاعدہ معائنہ کیا جائے۔
2. اخلاقی و دینی توازن:
اساتذہ کا دینی فہم، اعتدال پسند رویہ، اور سلوک کا جائزہ لیا جائے۔
3. پس منظر کی چھان بین:
اساتذہ کے ماضی، رویے، اور خاندانی پس منظر کی مکمل جانچ کی جائے۔
4. سیکیورٹی کلیئرنس:
انٹیلیجنس اداروں سے سیکیورٹی رپورٹ کو تقرری کا لازمی حصہ بنایا جائے۔
5. محبت و تجربے کا معیار:
صرف وہی افراد تعلیمی شعبے میں آئیں جو بچوں سے محبت کرتے ہوں اور تدریسی تجربہ رکھتے ہوں۔
6. یکساں اصول برائے تمام ادارے:
دینی مدارس اور دنیاوی اسکولوں میں یکساں اصول لاگو کیے جائیں۔
7. قانون سازی و سزا:
حکومت فوری طور پر قانون سازی کرے، اور خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے۔
نتیجہ: بچوں کو توڑنا نہیں، سنوارنا ہے
یہ تحریر کسی مخصوص ادارے یا فرد کے خلاف نہیں بلکہ ایک اصلاحی کوشش ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے مدارس و اسکول علم و تربیت کے مراکز ہیں، لیکن چند افراد کی غلطیاں پورے نظام کو بدنام کر دیتی ہیں۔ ہمیں ایک ایسا تعلیمی ماحول تشکیل دینا ہوگا جو محبت، شفقت، اور تربیت کا گہوارہ ہو۔
اسلام دہشت گردی نہیں، دلوں کو جوڑنے کا دین ہے۔
آئیے، ہم سب مل کر ایک ایسا نظام بنائیں جہاں بچے خوف میں نہیں، محبت میں پروان چڑھیں — تاکہ آنے والی نسلیں علم، اخلاق اور شعور کے چراغ روشن کریں۔